تشدد کا تازہ واقعہ ہفتے کی صبح صوبائی دارالحکومت کے نواح میں اس وقت پیش آیا جب مری آباد سے ہزارہ ٹاؤن جانے والی ایک مسافر ویگن پر نامعلوم مسلح افراد نے اسپینی روڈ پر خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ فائرنگ سے سات افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جب کہ چار افراد اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ مرنے والوں میں ایک خاتون اور دو بچے بھی شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کا تعلق اقلیتی ہزارہ برادری سے بتایا جاتا ہے۔
صوبائی پولیس کے سربراہ راؤ امین ہاشم نے صحافیوں کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے مشترکہ آپریشن شروع کررکھا ہے ’’یہاں چیک پوسٹ بھی ہے لیکن گردونواح میں چھوٹی چھوٹی گلیاں ہیں مقانات ہیں ہم نے اس کے لیے بھی ایک پالیسی بنائی ہے اور جلد ہی شرپسندوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔‘‘
واقعہ کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم یا فرد نے قبول نہیں کی ہے۔
اس تازہ پرتشدد واقعے کے خلاف ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور احتجاج کیا اور مشتعل مظاہرین نے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹائر جلا کر سڑکوں کو بلاک کردیا۔پولیس کے مطابق اس دوران دو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نذآتش کرنے کے علاوہ مظاہرین نے توڑ پھوڑ بھی کی۔
اس سے قبل جمعہ کی شام مستونگ میں فٹ بال کے ایک میچ کی اختتامی تقریب کے بعد ہونے والے بم دھماکے میں وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے بھتیجے حقمل رئیسانی ہلاک اور 24دیگر افراد زخمی ہوگئے ۔ زخمیوں میں وزیراعلیٰ کے بھائی سراج رئیسانی بھی شامل ہیں۔ اس دھماکے سے چند گھنٹے قبل سریاب روڈ پر ایران کے راستے یورپ جانے کے خواہش مند افراد پر نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر مسائل کے فوری حل کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق اس ضمن میں مزید تاخیر سے صورتحال قابو سے باہر ہوجائے گی۔
تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے رواں ہفتے کوئٹہ میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا تھا کہ حکومت صوبے کے مسائل کے لیے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے اور انھوں نے اس موقع پر ناراض بلوچ تنظیموں سے مذاکرات کی حکومتی پیش کش کو بھی دہرایا۔