پاکستان میں رواں برس رمضان کے ماہ میں نشر ہونے والے خصوصی ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس مرتبہ نہ صرف ڈراموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ انہیں نشر کرنے والے پلیٹ فارمز بھی بڑھ گئے ہیں۔
اس سال 'جیو ٹی وی' پر ڈرامہ سیریل ہیر دا ہیرو اور تیرے آنے سے نشر کیا جا رہا ہے جب کہ 'ہم ٹی وی' پر فیری ٹیل اور چاند تارہ ناظرین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
گزشتہ تین برسوں کی طرح اس سال بھی اے آر وائی رمضان سیریز 'صراطِ مستقیم' اور جیو ٹی وی 'مکافات' میں سبق آموز کہانیاں پیش کر رہا ہے۔
تاہم اس سال اے آر وائی کے لیے ڈرامے بنانے والے پروڈکشن ہاؤس 'بگ بینگ انٹرٹینمنٹ' نے یو ٹیوب پر رمضان ڈراموں کی مقبولیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم 'تماشہ 'کے لیے بھی ویب سیریز پروڈیوس کی ہے۔
'فیملی بزنس' کے نام سے یہ پراجیکٹ 'تماشہ' پلیٹ فارم کی پہلی اوریجنل ویب سیریز ہے۔جس کی کہانی ایک مڈل کلاس گھرانے کے گرد گھومتی ہےجس کے سربراہ کا کردار اداکار سیفِ حسن اور سلمیٰ حسن ادا کررہے ہیں۔ سیریز میں مرکزی کردار گلوکار عاصم اظہر اور ماہِ نور حیدر ادا کر رہے ہیں۔
ڈرامے کی ہر ہفتے دو اقساط نشر کی جاتی ہیں جب کہ اس کی آخری قسط عید کے دن ریلیز ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ٹیم تماشہ کی ایک ممبر کا کہنا تھا کہ رمضان میں عام طور پر ناظرین مزاحیہ شوز دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے 'فیملی بزنس' کو بھی رمضان میں ریلیز کرنے پر ترجیح دی گئی ہے کیوں کہ اس شو میں وہ سب کچھ ہے جو ناظرین اس ماہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عام دنوں کے مقابلے میں رمضان میں لوگ مختلف اوقات میں اپنے پسندیدہ شوز دیکھنا چاہتے ہیں چاہے وہ گھر پر ہوں یا باہر، تماشہ انہیں یہ موقع دیتا ہے کہ کسی مخصوص وقت کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے فارغ وقت میں 'فیملی بزنس' انجوائے کرسکیں۔
ٹیم تماشہ کی ممبر کا مزید کہنا تھا کہ اگر رمضان میں نشر ہونے والا ڈرامہ اچھا ہوتا ہے تو لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، 'فیملی بزنس' کی کہانی بھی پاکستانی عوام سے معاشرتی سطح پر منسلک ہے۔
البتہ رمضان میں نشر ہو نے والے ڈراموں کو جہاں شائقین پسند کرتے ہیں وہیں بعض ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر رمضان کے آغاز میں صارفین نے ڈرام سیریل 'چاند تارہ' اور 'تیرے آنے سے' کے پروموشنل سانگ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ رمضان میں اس طرح کے مواد کو ٹی وی سے دور رکھنا چاہیے۔
معروف ڈرامہ رائٹر اور رمضان کے خصوصی ڈرامے لکھنے والی صائمہ اکرم چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ رمضان کے لیے جو ڈرامہ لکھیں اس میں سیکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہو ورنہ اس کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔
انہوں نے رمضان ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ٹی وی سے ڈیجیٹل کی طرف جانے پر خوشی کا تو اظہار کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو رمضان ڈراموں کے لیے کرائی ٹیریا بھی مقرر کرنا چاہیے۔
SEE ALSO: 'منی بیک گارنٹی': عید پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم جس میں سابق امریکی صدر کا ڈمی نظر آئے گاان کے بقول "تبدیلی اگر مثبت ہو تو یقیناً اچھی لگتی ہے لیکن رمضان اسپیشلز کے لیے سب چینلز کو ایک کرائی ٹیریا بنانا چاہیے تاکہ فضول کی کامیڈی، ہلڑ پن اور اوور ایکٹنگ سے نکل کر سنجیدہ موضوعات پر ہلکے پھلکے انداز میں بات کی جاسکے۔ ڈرامے ہمارے کلچر اور ہماری اقدار کے مطابق ہوں تو بہتر ہوگا۔"
پاکستان میں رمضان کے مہینے میں ڈراموں کی مقبولیت میں اضافہ اس وقت ہوا جب ہم ٹی وی کا ڈرامہ سیریل 'سنو چندا' نشر ہوا۔ 'سنو چندہ' کے بعد سے فیملی ڈراموں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔
اپنے ڈراموں سنو چندا ، چپکے چپکے، ہم تم، عشق جلیبی اور چوہدری اینڈ سنز کی کامیابی پر بات کرتے ہوئے صائمہ چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان ڈرامہ انڈسٹری میں رمضان اسپیشلز کی باقاعدہ روایت کا آغاز ان کے ڈرامے سے ہوا۔
ان کے مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسا ڈرامہ لکھیں جو خاندان کے ہر فرد کے ساتھ دیکھا جاسکے۔صائمہ چوہدری کے بقول ان کی دانستہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ڈراموں میں بھرپور خاندانی نظام دکھائیں جو ہمارے مشرقی معاشرے کی خوبصورتی ہے ۔