پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے جس کے تحت ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا ہے۔
سانحہ ساہیوال کے مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد سے یہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ کر رہا ہے اور لوگ اس فیصلے پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بیشتر صارفین اس فیصلے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے انصاف کے منافی قرار دے رہے ہیں۔
جویریہ نعیم نامی ایک ٹوئٹر صارف نے سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو بری کرنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلے پر شرمسار اور معذرت خواہ ہیں۔ ہم آج بطور قوم ناکام ہو گئے ہیں۔
سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جانے والے بچوں کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ یہ سانحہ ان بچوں کو پوری زندگی ڈرائے گا۔
شفق فاطمہ نامی ایک صارف نے کہا کہ میں نے پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان کو ووٹ دیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ کوئی معاشرہ انصاف کے بغیر نہیں چل سکتا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کہاں ہے انصاف اور وہ وعدے؟ کہاں ہے تبدیلی؟
فکس اٹ نامی ایک اکاؤنٹ نے سانحہ ساہیوال میں ہلاک اور زخمی ہونے والے خاندان کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے شعر بھی لکھا کہ
یہاں انصاف بکتا ہے، یہاں فرمان بکتے ہیں
ذرا تم دام تو بدلو، یہاں ایمان بکتے ہیں
ملیحہ ہاشمی نامی ایک خاتون صحافی نے کہا کہ یہ شرم کا مقام ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے ان پولیس والوں کو شک کا فائدہ دیا جنہوں نے معصوم شہریوں کو قتل کیا تھا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ شک کا فائدہ انہیں کیوں نہیں دیا گیا جو ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیے گئے یا پھر ان بچوں کو شک کا فائدہ کیوں نہیں دیا گیا جنہوں نے اس سانحے میں اپنے خاندان کو کھو دیا؟
دی ایکسیپشن نامی اکاؤنٹ نے ٹوئٹ کی کہ میں اپنے وعدے کے مطابق سانحہ ساہیوال کے معصوم بچوں کو انصاف نہ ملنے پر پاکستان تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔
فیصل نامی ایک ٹوئٹر صارف نے عمران خان کی پرانی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی اس شخص کو جگا کر بتا دے کہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے تمام ’دہشت گرد‘ بری ہو چکے ہیں۔
نامور صحافی مبشر زیدی نے ٹوئٹ کی کہ عدلیہ کے لیے شرم کا مقام ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تمام ملزمان کو بری کر دیا۔
عثمان قاضی نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال کے دن جب انہیں خبر ملی کہ آپریشن حساس اداروں کی زیر نگرانی کیا گیا تھا تو وہ تب سے ایسے ہی فیصلے کی توقع کر رہے تھے۔
عاطف توقیر نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ آج بنگلہ دیش میں 18 سالہ لڑکی کو زندہ جلانے کے ایک مقدمے میں مذہبی مدرسے کے استاد سمیت 16 افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش: لڑکی کو زندہ جلانے کے الزام میں 16 افراد کو سزائے موتانہوں نے کہا کہ یہ واقعہ اپریل میں پیش آیا تھا جب کہ فیصلے میں 62 دن لگے۔ دوسری جانب آج ہی پاکستان میں سانحۂ ساہیوال کے تمام ملزمان باعزت بری کر دیے گئے۔
معروف صحافی حامد میر نے اپنی ٹوئٹ میں سوال کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال کے ملزموں کو عبرتناک سزا دلوانے کا وعدہ کیا تھا لیکن عدالت نے ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے، کیا ریاست مدینہ میں ایسے سانحے کے ذمہ دار رہا ہو سکتے ہیں؟