بنگلہ دیش میں ایک خاتون کو قتل کرنے کے الزام میں 16 افراد کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
نصرت جہاں نامی خاتون کو رواں سال اپریل میں جنسی ہراس کا الزام واپس نہ لینے پر کئی افراد نے مل کر زندہ جلا دیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بنگلہ دیش کے شہر فینی کی ایک عدالت نے جمعرات کو 16 افراد کو سزائے موت سنائی ہے۔
ان افراد میں نصرت جہاں کو زندہ جلانے والے افراد کے علاوہ وہ استاد بھی شامل ہیں جن پر نصرت نے جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا۔
نصرت جہاں نامی خاتون نے مارچ میں اپنے مدرسے کے استاد پر جنسی ہراس کا الزام لگایا تھا۔ جس کے بعد ان پر الزام واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔
الزام واپس نہ لینے پر جیل میں موجود استاد نے اپنے حامیوں کو خاتون کو قتل کرنے کے احکامات دیے جس کے بعد انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔
مجرمان میں سے کچھ افراد بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
ان کے علاوہ مذکورہ مذہبی مدرسے کے کچھ طلبا اور دو خواتین کو بھی نصرت کے قتل کا ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے۔
ان افراد کو نصرت جہاں کے قتل اور اس میں سہولت کاری کے الزامات کے تحت موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
فیصلے کے بعد استغاثہ کے وکیل حفیظ احمد نے کہا ہے کہ اس فیصلے یہ واضح ہو گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں قانون کی حکمرانی ہے اور یہاں جرم کر کے کوئی بچ نہیں سکتا۔
خیال رہے کہ نصرت جہاں نے رواں سال مارچ میں جنسی ہراس کی شکایت مقامی پولیس اسٹیشن میں درج کرائی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی جس میں ایک پولیس افسر نے ان کی شکایت درج کرتے ہوئے انہیں کہا تھا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں ہے۔
اپریل میں انہیں مدرسے کی چھت پر استاد کے ساتھیوں نے پکڑ لیا اور ان سے مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ نصرت جہاں کے انکار پر انہوں نے نصرت کو باندھا اور مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔
آگ سے نصرت کا 80 فی صد جسم جل گیا تھا جس کے بعد وہ چار دن موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد ہلاک ہو گئی تھیں۔
نصرت کی ہلاکت کے بعد بنگلہ دیش میں بڑی تعداد میں مظاہرے ہوئے تھے اور ملزمان کو مثالی سزا دینے کے مطالبات کیے گئے تھے۔
مقامی پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے اس بات کا مکمل انتظام کیا تھا کہ نصرت کی موت کو خودکشی کا رنگ دیا جا سکے۔ لیکن نصرت شعلوں میں لپٹی ہوئی حالت میں کسی طرح سیڑھیوں سے نیچے آنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
اس قتل کے بعد بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد پر بھی خواتین کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کے لیے دباؤ ہے۔ جس کے بعد ان کی حکومت نے تقریباً 27 ہزار اسکولوں کو جنسی ہراس کے واقعات روکنے کے لیے کمیٹیاں قائم کرنے کے احکامات دیے۔
بنگلہ دیش کے سماجی کارکن کہتے ہیں کہ ملک میں جو بچے اور خواتین جنسی تشدد کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں ان میں سے اکثر کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ان کے بقول ان متاثرین کو انصاف کم ہی ملتا ہے۔
نصرت جہاں کے قتل کا مقدمہ بچوں اور خواتین سے متعلق خصوصی عدالت نے سنا اور صرف 62 دنوں کی سماعت کے بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا ہے جسے مقامی سماجی کارکن خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون ملکہ بانو نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مثالی سزا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس سے جنسی تشدد کے واقعات میں ملوث افراد اور ان کے سہولت کاروں کو مؤثر پیغام جائے گا۔
خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ایک مقامی سماجی تنظیم ’مہیلا پرشاد‘ کی سربراہ نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں بڑھتے یوئے جنسی زیادتی اور خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس تنظیم کے مطابق سال کے پہلے چھ ماہ کے عرصے میں بنگلہ دیش بھر میں جنسی تشدد کے 731 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 592 میں خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی جب کہ 26 خواتین ایسی ہیں جنہیں زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔
دوسری جانب مقدمے میں دفاع کے وکلا نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کریں گے۔