پاکستان آٹو مینو فیکچرنگ ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے ماہ میں پاکستان میں کاروں اور دیگر گاڑیوں کی فروخت میں سو فی صد سے بھی زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2021 میں ملک میں مجموعی طور پر کاروں کے 20 ہزار 669 یونٹس فروخت ہوئے جب کہ جولائی 2020 میں یہ تعداد 10 ہزار 123 یونٹس تھے۔
گاڑیوں کی فروخت سے متعلق اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاک سوزوکی موٹرز اور انڈس موٹرز کی تاریخ میں گاڑیوں کی ایک ماہ کے دوران ریکارڈ توڑ فروخت ہوئی ہے۔
گاڑیوں کی فروخت میں ہنڈا، سوزوکی اور انڈس موٹرز کے علاوہ پاکستان میں نئے آنے والی کمپنیوں کی گاڑیوں کی فروخت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق صارفین نے سب سے زیادہ 1300 سی سی سے زائد انجن کی کاریں خریدنے میں دل چسپی ظاہر کی ہے۔
تاہم اس دوران بسوں اور موٹر سائیکلز کی فروخت میں بالترتیب 38 اور 11 فی صد کی کمی دیکھی گئی۔
رواں مالی سال کے پہلے ماہ میں 320 ٹرکس، 23 بسیں، 1200 جیپس، تین ہزار سے زائد پک اپ ٹرکس اور چار ہزار سے زائد ٹریکٹرز بھی فروخت ہوئے ہیں۔
معاشی ترقی یا معیشت کی بحالی
ان اعداد و شمار کو جہاں حکومتی شخصیات اور برسر اقتدار جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما معاشی ترقی سے تعبیر کرتے نظر آرہے ہیں وہیں دوسری جانب معاشی ماہرین اس اضافے کی کئی دیگر وجوہات بیان کر رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کی اہم وجہ کرونا کے بعد کسی حد تک معاشی سرگرمیوں کی بحالی ہے۔
معاشی میدان میں مختلف سیکٹرز پر تحقیق کرنے والے ادارے ’سپیکٹرم سیکورٹیز‘ سے منسلک عبد العظیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کرونا کی صورتِ حال خراب ہونے کی وجہ سے اکثر معاشی سرگرمیاں بند تھیں۔ اس وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی دیکھی گئی۔ لیکن اب معیشت میں کسی حد تک ہلچل نظر آ رہی ہے جس کے بعد لوگ گاڑیاں خرید رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ کرونا کے دوران ملک میں لگائی گئی سفری پابندیوں کے باعث اکیلے سفر کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے نئی گاڑیاں زیادہ خریدی ہیں۔
عبد العظیم کے مطابق دوسری جانب ملک میں گزشتہ ایک سال کے دوران ریکارڈ ترسیلات زر آئی ہیں جس سے ان خاندانوں کی قوتِ خرید میں اضافہ ہوا ہے جن کے اہلِ خانہ کے افراد بیرونِ ملک مقیم تھے۔ انہوں نے بھی نئی گاڑیاں خریدنے کو ترجیح دی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے زراعت سے منسلک طبقے جن میں زمین دار اور آڑھتی شامل ہیں ان کی آمدنی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کا اثر نئی گاڑیوں کی خریداری میں نظر آرہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں کرونا کے دوران لوگوں کا حج عمرہ یا سیر و سیاحت کے لیے بیرون ملک سفر کم ہوا ہے۔ ملک میں ایسے افراد نے جائیدادیں خریدنے کے ساتھ نئی گاڑیاں لینے پر بھی پیسے خرچ کیے ہیں۔
سود اور ٹیکس کی شرح
عبد العظیم کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کی نسبت اس برس شرح سود کم ہونے سے بھی لوگوں نے بڑی تعداد میں لیز پر گاڑیاں حاصل کیں اور بینکوں نے بھی اس مد میں زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں کمی بھی گاڑیاں خریدنے کے رجحان پر اثر انداز ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے گزشتہ ماہ 1000 سی سی تک کی گاڑیوں پر عائد ڈھائی فی صد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے اور جنرل سیلز ٹیکس 17 فی صد سے کم کرکے 12.5 فی صد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اسی طرح حکومت نے ایک ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر بھی جنرل سیلز ٹیکس کو 17 فی صد سے کم کر کے 12.5 فی صد کردیا تھا۔
ایک ہزار ایک سی سی سے دو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 5 فی صد سے کم کر کے 2.5 فی صد کر دی گئی اور دو ہزار سی سی کی گاڑیوں پر اسے ساڑھے سات فی صد سے کم کر کے 5 فی صد کر دیا گیا۔
جب کہ تین ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر ایف ای ڈی میں ڈھائی فی صد تک کمی کی تھی۔ اسی طرح حکومت نے تمام گاڑیوں پر اضافی کسٹم ڈیوٹی بھی سات فی صد سے کم کر کے دو فی صد کردی تھی۔
’آٹو سیکٹر میں بحالی کے اثرات زیادہ ہیں‘
ایک اور معاشی ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں بھی ایک صنعت میں تیزی سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ پوری معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی۔
ان کے نزدیک اس تیزی کی وجہ کرونا کی وجہ سے پچھلے سال کی معاشی سست روی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ اب ایک سال کے بعد ہماری معیشت میں کچھ بحالی دیکھنے میں ضرور آئی ہے اور یہ بحالی کسی سیکٹر میں زیادہ ہے اور کسی میں کم نظر آرہی ہے۔ اس کا اثر ہمیں آٹو سیکٹر میں بھی نظر آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں ہندوستان سمیت کئی ممالک میں گاڑیوں کی فروخت میں کمی آئی تھی جو اب معمول پر آ رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی طلب پوری کرنے سے ہونے والی معاشی سرگرمیوں سے معیشت پر ظاہر ہونے والے مثبت اثرات دیرپا نہیں ہوتا۔
ان کاکہنا ہے کہ مقامی سطح پر مصنوعات سازی میں اضافے کے ساتھ برآمدات میں اضافے سے ہی پائیدار ترقی ممکن ہے۔
گاڑیوں کی قیمتیں اب بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں اس وقت ایک ہزار میں سے صرف 17 پاکستانیوں کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گاڑیوں کی قیمتیں اب بھی عام آدمی کی پہنچ سے کہیں زیادہ ہیں اور لوگ موٹر سائیکل پر ہی سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔
ملک میں اس وقت نئی گاڑی کی کم سے کم قیمت بھی 15 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ جو عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے۔ جبکہ بھارت میں 70، تھائی لینڈ میں 281 اور انڈونیشیا میں ایک ہزار میں سے 77 افراد کے پاس اپنی کاریں ہیں۔
ملک میں ہر سال اوسطا 2 لاکھ نئی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں جن میں 30 ہزار کے قریب درآمد شدہ گاڑیاں ہیں۔ جبکہ ملک میں 8 لاکھ پرانی گاڑیوں کی ری سیل ہوتی ہے۔
نئے کھلاڑیوں کی آمد
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں گاڑیوں کی کھپت تو موجود ہے لیکن اس میں اصل رکاوٹ حکومت کی جانب سے غیر ملکی درآمد شدہ گاڑیوں پر بھاری ٹیکس کا نفاذ کرکے مقامی کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
لیکن اس شعبے کے بعض ماہرین کے مطابق کئی مقامی کمپنیوں نے مارکیٹ میں اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ یہ ادارے دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ملک میں گاڑیاں تیار نہیں کرتے بلکہ صرف اسمبل کرتے ہیں۔ اس سے لاگت میں اضافہ آتا ہے۔
البتہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے مارکیٹ میں نئے پلئیرز آ رہے ہیں اور انہیں مختلف ترغیبات بھی دی جا رہی ہیں جس سے آنے والے چند برسوں میں یہ اجارہ داری کم ہوجائے گی۔