پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسلام آباد، لاہور اور خیبرپختونخوا سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں سیکیورٹی اہل کار اور کئی دوسرے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کے بعد اُن کے سلیپر سیل وقتاً فوقتاً کارروائیاں کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، تاہم ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتِ حال کنٹرول میں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے اور اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات حکومت کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشن سے بچ کر افغانستان جانے والے طالبان جنگجو اب واپس پاکستان آ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اسٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں دہشت گرد حملوں میں 56 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں دہشت گردی کے 294 واقعات میں 388 افراد مارے گئےجب کہ 606 زخمی ہوئے۔
رواں سال کے آغاز میں ان حملوں کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اسلام آباد میں موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے پولیس اہل کاروں پر فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں ایک پولیس اہل کار اور دو مبینہ دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔
SEE ALSO: پشاور: نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پادری ہلاک، پولیس کا علاقے میں سرچ آپریشناس کے بعد 20 جنوری کو لاہور میں انارکلی میں ہونے والے دھماکے میں تین افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے جس کی ذمے داری بلوچ تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) نے قبول کی تھی۔
25 جنوری کو تربت کے علاقہ کیچ میں فوجی چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے میں 10 سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہوئے۔
وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ مختلف بلوچ تنظیموں کا اتحاد ہونے کے باعث بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔
سینئر تجزیہ کار اکرام سہگل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی فائٹنگ فورس میں بہت سارے پاکستانی بھی شامل ہیں جن میں زیادہ تر فاٹا اور سوات سے بھاگ جانے والے لوگ تھے۔
اُن کے بقول افغان طالبان قیادت جو بھی کرے لیکن یہ بات ماننا پڑے گی کہ وہ نچلی سطح کے طالبان کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، ہمارے ہاں ان دہشت گردوں کے سلیپر سیلز موجود ہیں لیکن ان سلیپر سیلز کو بھی مختلف سیاسی وجوہات کی بنا پر ختم نہیں کیا گیا۔
اکرام سہگل کا کہنا تھا کہ "میں نے اس حوالے سے تجویز دی تھی کہ ایف سی اور رینجرز کے ریٹائر ہونے والے اہل کاروں کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع ہونی چاہیے لیکن سیکیورٹی قیادت کا فوکس اس بات پر رہا کہ افغان قیادت کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہونے سے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی طالبان کا فوکس سافٹ ٹارگٹ تھے جن میں مساجد اور عام لوگوں کے مقامات تھے۔"
اکرام سہگل کہتے ہیں کہ پاکستان کے رہنے والے طالبان واپس آئیں گے اور واپس آ کر مزید مزاحمت کریں گے، واپس آنے والے طالبان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سپرپاور کو شکست دی ہے اوراس کے مقابلہ میں پاکستان کو ہرانا زیادہ آسان ہے۔
بلوچستان کے بارے میں اکرام سہگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حالات کی خرابی میں بڑا مسئلہ بھارت ہے۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی سے وہاں فرق پڑا ہے جس کے بعد بھارت نے ان گروپس کو مزید سپورٹ فراہم کی ہے جس کی وجہ سے حالات خراب ہورہے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکومت بلوچستان میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی تردید کرتی رہی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اسٹڈیز کے عبداللہ خان کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد طالبان باآسانی اپنی نقل و حرکت آزادانہ طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ افغانستان میں مختلف گروہ متحد ہوچکے ہیں اور زیادہ منظم انداز میں حملے کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول بلوچستان میں بھی مختلف کالعدم گروپ اتحاد کرچکے ہیں اور زیادہ منظم ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیں، اس کے مقابلے میں پاکستان کے سیکیورٹی ادارے شاید صورتِ حال کا مکمل تجزیہ نہیں کرسکے اور یہی وجہ ہے کہ حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عبداللہ خان نے کہا کہ حالیہ عرصے میں پاکستانی طالبان نے کوئی بہت بڑا حملہ نہیں کیا لیکن وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں مواقع بھی دستیاب ہیں۔