راشد حسین کے والدین اور ان کے دو چھوٹے بھائی انہیں میٹرک پاس کرنے کے بعد کالج میں داخلے کی مبارک باد دینے گلگت سے پی آئی اے کے طیارے میں اسلام آباد آرہے تھے۔ لیکن 32 سال قبل اڑان بھرنے والی یہ پرواز ابھی تک لاپتا ہے اور راشد حسین سمیت اس میں سوار مسافروں اور عملے کے اہل خانہ کا انتظار ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
یہ کہانی ہے 25 اگست 1989 کو گلگت سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہونے والے پاکستان انٹر نیشنل ایئرلائن(پی آئی اے) کے طیارے کی جو اڑان بھرنے کے 15 منٹ بعد ہی لاپتا ہو گیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ جب فوکر طیارے نے صبح سات بجکر 36 منٹ پر گلگت سے اسلام آباد کی طرف پرواز شروع کی تو اس کے پائلٹ کا تقریبا سات بج کر 40 منٹ پر کنٹرول ٹاور سے رابطہ منقطع ہوگیا اور یہ ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں میں غائب ہو گیا۔
لاپتا ہونے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی پرواز پی کے 404 میں 49 مسافر اور عملے کے 5 ارکان سمیت کل 54 افراد سوار تھے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق اس حادثے میں سوار تمام 54 افراد کو لاپتا قرار دے دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
گلگت شہر کے شاہد اقبال کا کہنا ہے کہ اس طیارے کے 49 مسافروں میں تقریباً 40 کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا جبکہ باقی پنجاب اور کراچی کے رہنے والے تھے۔
فیملی کے طیارے پر سوار ہونے کا علم نہیں تھا
راشد حسین جن کے والدین اور دو بھائی اس پرواز پر سوار ہو کر اسلام آباد آرہے تھے وہ آج گلگت بلتستان کے زرعی بینک کے ریجنل چیف ہیں اور اپنے اہل خانہ کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں راشد حسین کا کہنا تھا کہ طیارہ لاپتا ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی انہیں اس واقعے کی اطلاع تو مل گئی تھی لیکن یہ خبر نہیں تھی کہ ان کے والدین اور بھائی اس میں سفر کررہے تھے۔
البتہ ان کے ایک اور قریبی رشتہ دار کو اس بات کا علم تھا۔ انہوں ںے راشد سے رابطہ کرکے انہیں اس کی اطلاع دی اور اگلے دن دونوں گلگت پہنچ گئے۔
راشد حسین کا کہنا تھا کہ گلگت پہنچنے کے بعد وہ گھر میں جب داخل ہوئے تو رشتے داروں اور دیگر عزیز و اقارب بڑی تعداد میں جمع تھے اور جس سے انہیں یقین ہوگیا کہ واقعی ان کے والدین اور بھائی اس طیارے کے ساتھ لاپتا ہو گئے ہیں۔
کیا طیارہ ایل او سی کے پار گرا؟
راشد حسین نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں ابھی تک والدین اور بھائیوں کے مرنے کا یقین نہیں آتا کیوں کہ نہ تو طیارے کے حادثے کا سرکاری طور پر اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی اس طیارے کا ملبہ ملا۔
اُنہوں نے کہا کہ حکومت نے ابھی تک کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں لیکن یہ بھی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں کہ طیارے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع خطے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے بھارت کے زیر انتظام علاقے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
گلگت سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت شاہد اقبال کی بہن، بہنوئی اور بھانجی بھی لاپتا ہونے والے طیارے پر سوار تھے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ بعض حلقے یہ بھی بتاتے ہیں کہ طیارے کا پائلٹ غلطی سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے میں گیا تھا اور وہاں پر بھارتی افواج نے مبینہ طور پراس طیارے کو مار گرایا تھا۔
طیارے کے لاپتا ہونے کیے بعد مختلف مواقع پر پاکستان کے حکومتی ادارے تحقیقات کرنے اور طیارے کو تلاش کرنے کی کوششوں کے بارے میں تو بتاتے ہیں مگر نہ تو اس واقعے کو ایئر کریش قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی کبھی اس کے اغوا ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
'ایک اور کوشش کی جائے'
راشد حسین اور شاہد اقبال نے بتایا کہ ابتدائی برسوں میں اس طیارے یا طیارے کے ملبے کو ڈھونڈنے کے لیے کئی آپریشن کیے گئے۔
راشد حسین کے مطابق طیارے کی تلاش کے لیے 30 سے 40 آپریشن کیے گئے لیکن یہ سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔
تاہم ان کا اصرار ہے کہ حکومت اس طیارے کو تلاش کرنے کی ایک اور کوشش کرے۔
وہ حال ہی میں معروف کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی لاش چھ ماہ بعد ملنے کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ تین دہائی قبل لاپتا ہونے والے اس طیارے کے سلسلے میں ایک اور کوشش کرے۔
احتجاج اور مطالبات
بدھ کو پی آئی اے کے طیارے کے لاپتا ہونے کے 32 سال مکمل ہونے کے موقعے پر گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ دو درجن افراد نے گلگت پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حکومت انہیں لاپتا ہونے والے طیارے کے بارے میں آگاہ کرے۔ اگر واقعی اس طیارے کے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا اور اس میں سوار تمام افراد مارے جا چکے ہیں تو حکومت اس کا سرکاری طور پر اعلان کرے۔
احتجاجی مظاہرے میں شامل لوگوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ اس لاپتا طیارے کے حوالے سے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیں۔
معاوضے کی ادائیگی
راشد حسین کا کہنا ہے کہ ابتدائی برسوں میں پی آئی اے کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کو معاوضے کی ادائیگی کی گئی تھی مگر کسی بھی خاندان کو اس طیارے میں مرنے والوں کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صحافی فہیم اختر کا کہنا ہے کہ ماضی کے برعکس کئی برسوں کے بعد طیارے کے واقعے میں متاثرہ خاندانوں کے افراد نے مظاہرہ کیا ہے۔ جبکہ ماضی میں متاثرہ خاندان اس دن یاد منانے کو اپنے گھروں تک محدود رکھتے تھے۔