پاکستان میں چار سال قبل پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے حادثے کا شکار ہونے والے طیارے سے متعلق حتمی تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جہاز کے گرنے کی وجہ اس کے ایک انجن میں خرابی بنی اور بعض پُرزے غیر مستند طریقے سے طیارے میں لگانے کے شواہد بھی ملے ہیں۔
تحقیقاتی بورڈ نے سفارشات میں کہا ہے کہ پاکستان کی قومی ایئر لائن کو طیاروں اور مسافروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے مستقل نگرانی کا نظام قائم کر کے اس کے مشاہدات کو کمزرویاں دور کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب کہ ایسی صورتِ حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے عملے کو مناسب تربیت فراہم کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
حتمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پرواز سے قبل طیارے کے ایک انجن اور پراپلر سسٹم میں تکنیکی خرابیوں کی نشان دہی ہوئی ہے۔
یہ طیارہ سات دسمبر 2016 کو چترال سے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد جاتے ہوئے حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہوا تھا۔
رپورٹ کے مطابق حادثہ پرواز شروع ہونے کے 42 منٹ کے بعد پیش آیا تھا۔
حادثے میں طیارے میں سوار تمام 47 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ طیارے میں نامور نعت خواں جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔
اُس دن اس طیارے کی یہ ایک ہی دن میں چھٹی پرواز تھی۔
سول ایوی ایشن کے ایئر کرافٹ انوسٹی گیشن بورڈ کی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ اے ٹی آر طیاروں کی 1984 سے جاری فلائٹ آپریشن میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد حادثہ ہے۔
فرانس، چین اور کینیڈا کی مدد سے ہونے والی اس تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ دورانِ پرواز سب سے پہلے طیارے کے انجن نمبر ایک میں خرابی سامنے آئی۔ جب کہ اس دوران انجن نمبر دو معمول کے مطابق کام کر رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق طیارے کی سمت پہلے آٹو پائلٹ سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ایک کے بعد ایک تکنیکی خرابیاں سامنے آنے سے پائلٹ جلد طیارے پر کنٹرول کھو چکا تھا جس کے باعث طیارہ تیزی سے بلندی سے نیچے آتا رہا۔ اس صورتِ حال میں ایک انجن فیل ہونے اور پروپلر سسٹم خراب ہونے سے طیارے کی پرواز غیر مستحکم ہوئی اور طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق طیارے کے انجن نمبر ایک اور اس کے ساتھ ہی واقع پراپلر سسٹم میں خرابی کی نشان دہی پرواز سے قبل پیدا ہوئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق انجن کے پاور ٹربائن اسٹیج کے بلیڈ اور اوور اسپیڈ گورنر کی پن میں بھی پرواز سے قبل نقصان پہنچا ہوا تھا۔ طیارے میں یہ ٹوٹ پھوٹ ممکنہ طور پر گزشتہ پرواز کے دوران ہوئی تھی۔ جب کچھ دیر قبل ہی طیارہ پشاور سے چترال پہنچا تھا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق یہ عیب ریگولر آپریشن کے دوران قابلِ مشاہدہ نہیں ہوتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طیارے کے او ایس جی میں لگائی گئی پن غالباََ غلط طریقے سے لگائی گئی تھی۔ لیکن حکام کو اس پن کے غیر مستند طریقے سے لگانے کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔
رپورٹ کے مطابق بلیڈ میں پائی جانے والی خامی کے ساتھ بھی عام طور پر جہاز دوسرے انجن پر با آسانی پرواز اور لینڈ کر سکتا ہے۔ اس لیے ماہرین کے مطابق طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی محض یہ ایک وجہ نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس کے ساتھ کئی اور عوامل نے بھی مل کر اس طرح کی صورتِ حال پیدا کی جس میں طیارہ پائلٹ کے کنٹرول سے باہر ہوا تھا۔
رپورٹ کے مطابق حادثے کے 26 روز قبل ہی اس طیارے میں دوسرے طیارے کا انجن لگایا گیا تھا۔ جو کسی منصوبہ بندی کی سرگرمی کا حصہ نہیں تھا۔ اور اس انجن کو فٹ کرنے کے بعد طیارے نے 93 گھنٹے کی پرواز بھی کی تھی۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ ریگولر فلائٹ آپریشن کے دوران کاک پٹ کریو کے رحجانات کا جائزہ لینے کے لیے فلائٹ ڈیٹا مانیٹرنگ سسٹم بہت کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ پی آئی اے میں اس کے تحت اگرچہ تجزیے کا نظام تو موجود ہے لیکن اسے مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا تھا جس سے آپریشنل ٹرینڈز کا تفصیلی ریکارڈ تیار کرنا آسان ہوتا ہے۔ اس سے ایئر لائن کو ایس او پیز متعین کرنے اور اس کے ساتھ عملے کو ٹریننگ دینے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کو مستقل مانیٹرنگ سسٹم میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ کمزوریوں پر نظر رکھی جا سکے۔
اسی طرح پی آئی اے کو سیفٹی مینجمنٹ کے نظام پر توجہ دینے پر زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فلائٹ ڈیٹا مینجمنٹ سسٹم سے حاصل ہونے والے تجزیات کو پرکھ کر کمزوریوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
رپورٹ میں پیش کی جانے والی سفارشات کے تحت پاکستان کی قومی ایئرلائن کو اپنے ٹریننگ سسٹم کو بھی مزید فعال اور مؤثر بنانے کی نشان دہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کی سفارشات میں پی آئی اے کو تمام اے ٹی آر طیاروں کے پی ٹی بلیڈز تبدیل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق قومی ایئر لائن کی طرح سول ایوی ایشن حکام کو بھی مانیٹرنگ کا نظام مزید بہتر کرنے، ایئر لائن کی آٹو میشن مینجمنٹ، انرجی اسٹیٹ مینجمنٹ اور پھر عملے کی مناسب تربیت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انوسیٹی گیشن بورڈ کی یہ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں پیش کر دی گئی ہے جس کے بعد عدالت نے یہ رپورٹ فریقین کو جاری کرنے کا حکم دیا ہے جس پر مزید کارروائی آئندہ سماعت کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔