"میری بیٹی کا شمار اس ملک کے قابل ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ وہ برطانیہ سے وطن واپس آنا نہیں چاہتی تھی لیکن میں نے اسے کہا کہ آپ جیسے پڑھے لکھے لوگوں کی اس ملک کو ضرورت ہے۔ اس بات پر وہ پاکستان آگئی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہاں اتنے ظالم لوگ بیٹھے ہیں کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے گی۔ میری زندگی کے 30 برس اس پی آئی اے اور حکومت نے ضائع کر دیے۔ آخر کب تک یہ حادثے ہوتے رہیں گے؟ ہمارے بچے یوں ہی مار دیے جائیں گے؟ کب یہ نظام ٹھیک ہوگا؟ اور کون اسے ٹھیک کرے گا؟۔"
الماس بانو کی دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک نیلم برکت علی گزشتہ برس 22 مئی کو پاکستان ایئر لائن (پی آئی اے) کے اس بدقسمت طیارے میں سوار تھیں جس نے لاہور سے اڑان بھری لیکن کراچی لینڈ کرنے سے چند سیکنڈ قبل حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔
حادثے میں ہلاک ہونے والی نیلم برکت علی کی والدہ آج بھی اپنی بیٹی کو یاد کرتی ہیں تو آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔
ان کے بقول، "جب میں نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو اس کی کچھ شناخت باقی تھی جس پر میں نے ایدھی فاؤنڈیشن سے درخواست کی کہ میں اپنی بیٹی کو کفن خود پہناؤں گی۔ لیکن جب لاش وصول کی تو کیا تھی میری بیٹی، اور کیا مجھے پکڑایا ان لوگوں نے؟"
کراچی اور پھر برطانیہ کی ناٹنگم یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ 30 سالہ نیلم لاہور میں بطور کلینیکل ایمبریولوجسٹ (ماہِر بانچھ پن) ذمہ داریاں سر انجام دے رہی تھیں۔ کرونا کے سبب سفر پر عائد پابندیوں کے بعد یہ پہلی فلائٹ تھی جس سے وہ عید منانے کے لیے لاہور سے کراچی اپنے گھر لوٹ رہی تھیں۔
نیلم کی والدہ الماس بانو جوانی میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں۔ ان کے شوہر کا ایک حادثے میں اس وقت انتقال ہو گیا تھا جب نیلم صرف 10 برس کی تھیں اور ان کی چھوٹی بیٹی چند ماہ کی تھی۔
الماس بانو نے تنہا اپنی دونوں بیٹیوں کی کفالت کا بوجھ اٹھایا اور بیٹیوں کو پڑھایا لکھایا۔
ان کے بقول، "نیلم نے جامعہ کراچی سے فزیولوجی میں ڈگری مکمل کی اور اسکالر شپ پر برطانیہ گئیں۔ لیکن اس حادثے کے بعد سب کچھ بدل سا گیا ہے۔"
الماس نے نیلم کے لیے وہ عید کا جوڑا جو گزشتہ برس بہت شوق سے بنوایا تھا اسے محفوظ کر کے کر ان تمام کپڑوں کے ساتھ رکھ دیا ہے جو نیلم کے زیرِ استعمال تھے۔ اب اس گھر میں ہر جگہ یا تو نیلم کی تصاویر ہیں یا پھر ان کی یادیں۔
زرقا خالد چوہدری کے گھر میں ہاتھ سے بنا ان کے والد محمد سلیم اسلم کا اسکیچ سائڈ ٹیبل پر رکھا ہے۔ وہ اب لیپ ٹاپ پر اپنے والد اور والدہ کی تصاویر دیکھ کر اچھے لمحوں کو یاد کرتی ہیں۔
سلیم اسلم عید منانے کے لیے اپنی بیٹی کے پاس لاہور سے کراچی آرہے تھے اور وہ بھی اسی بدقسمت طیارے میں سوار تھے۔
پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کی یہ فلائٹ لینڈنگ سے چند سیکنڈ قبل جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے متصل ماڈل کالونی کی رہائشی آبادی میں گر کر تباہ ہوئی۔ طیارے میں عملے سمیت 99 افراد سوار تھے جن میں سے صرف دو معجزانہ طور پر زندہ بچ پائے۔
زرقا کے مطابق اس حادثے کے بعد نہ ختم ہونے والی آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ طیارے کے تباہ ہونے سے والد کی لاش ملنے تک روزانہ پی آئی اے کی انتظامیہ کی طرف سے فون آتے تھے اور سوال کیے جاتے کہ جو مسافر آ رہے تھے وہ آپ کے کون تھے؟ ان کی عمر کیا تھی؟ وہ کیوں آرہے تھے؟۔
زرقا کے بقول، "کبھی سوال ہوتا کہ ڈی این اے کے لیے یہاں چلی جائیں۔ کبھی کہا جاتا کہ فلاں دستاویز لے آئیں۔ مدد اور معاونت کے لیے اس وقت کوئی منظم انتظام نہ تھا ایک عجیب افراتفری کی صورتِ حال تھی۔"
زرقا کہتی ہیں والد کی لاش کی شناخت نہیں ہو پا رہی تھی تو ان کا 'ڈی این اے' لیا گیا جس کی رپورٹ آج تک نہیں آئی۔ پھر دوسرا ڈی این اے دینے ان کی بہن رحیم یار خان سے لاہور گئی۔ بعد ازاں شناخت کے بعد کسی اور کی باڈی انہیں دے دی گئی۔ جب وہ مرحلہ طے کیا تو یکم جون کو والد کی تدفین کی اور 14 جون کو والدہ صدمے میں اس دنیا سے چل بسیں۔
اسی برس کے محمد سلیم اسلم کا تعلق رحیم یار خان سے تھا اور وہ 2012 سے لاہور میں ہی مقیم تھے جہاں وہ صابن بنانے والی مقامی کمپنی 'صوفی سوپ' سے وابستہ تھے۔
زرقا کے مطابق لاہور سے روانگی کے وقت والد نے فون کر کے کہا کہ آج افطاری تم سب کے ساتھ ہو گی۔ بورڈنگ سے قبل ان کا آخری ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جس کے بعد حادثے کی خبر ملی۔
پاکستان میں رائج قانون 'کیریج بائی ایئر ایکٹ' کے تحت ایئر لائنز حادثے کی صورت میں متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کی پابند ہیں۔ مگر 'فیٹل ایکسیڈنٹس' ایکٹ متاثرین کو اس شخص یا ادارے کے خلاف عدالت میں جانے کا حق بھی دیتا ہے جس کی غلطی کے سبب حادثہ پیش آیا ہو۔
اس حادثے کے بعد پی آئی اے نے حادثے میں ہلاک ہونے والے مسافروں کے لواحقین کے لیے ایک کروڑ فی کس کا اعلان کیا تھا جسے ان کے ورثا کو دیا جانا تھا۔ اس سے قبل تدفین کے موقع پر دس لاکھ روپے بھی فی کس ادا کیے گئے۔ لیکن ایک کروڑ کی رقم اب تک تمام متاثرہ خاندانوں کو نہیں مل سکی۔
پی آئی اے کے مطابق یہ رقم اب تک 30 خاندان وصول کر چکے ہیں۔
زرقا چوہدری اور الماس بانو سمیت درجنوں خاندان یہ رقم لینے سے انکار کر رہے ہیں جس کی وجہ پی آئی اے کی جانب سے ایک معاہدہ ریلیز ڈسچارج ایگریمنٹ (آر ڈی اے) پر دستخط کرنے کی شرط ہے، جو ماہرینِ قانون کے مطابق متاثرین کی جانب سے مستقبل میں کسی بھی قانونی کارروائی سے ذمہ داران کو تحفظ دیتا ہے۔
آر ڈی اے کیا ہے؟
ریلیز ڈسچارج ایگریمنٹ کو پی آئی اے اور حکومت نے مل کر بنایا ہے۔ اس معاہدے میں درج ہے کہ جو اس پر دستخط کرتا ہے وہ پی آئی اے، سول ایوی ایشن، حکومت، ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس، جہاز بنانے والی کمپنی، انجن بنانے والی کمپنی سمیت دیگر کسی بھی حکومتی ادارے کے خلاف مستقبل میں قانونی کارروائی کا حق نہیں رکھ سکے گا۔
ماضی میں ہونے والے فضائی حادثات میں بھی ورثا کو ادا کی جانے والی رقوم اسی 'آر ڈی اے' پر دستخط کرا کر ادا کی گئی ہیں۔
پی کے- 8303 کے متاثرین کے مطابق وہ اس دستاویز پر دستخط کیے بغیر یہ معاوضہ لینے کے خواہش مند ہیں۔ متاثرین کے بقول انییں ایئر بلیو، بھوجا ایئر، فوکر حادثے اور حویلیاں حادثے کے متاثرین نے رابطے کر کے کہا ہے کہ جو غلطی وہ ماضی میں کر چکے ہیں اسے یہ متاثرین نہ دہرائیں۔
اس ضمن میں پشاور ہائی کورٹ کا بھی ایک فیصلہ ہے کہ متاثرین کو رقم کی ادائیگی کے وقت کسی بھی ایگریمنٹ پر دستخط نہ کرائے جائیں۔
کیا ایک کروڑ روپے فی کس ابتدائی معاوضہ ہے؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بتایا کے لواحقین کا خیال ہے کہ پی آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ رقم فرسٹ لائبیلیٹی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ابتدائی معاوضہ ہے اور تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد انہیں مزید معاوضہ ادا کیا جائے گا، تو ایسا نہیں ہے۔
عبداللہ حفیظ کے بقول، "یہ فل اینڈ فائنل پیمنٹ ہے جو انشورنس کمپنی نے تمام لواحقین کے خاندانوں کو کرنی ہے۔ پاکستان میں کیریج بائی ایئر ایکٹ 2012 کے تحت لائیبیلیٹی کی حد 50 لاکھ روپے فی کس رکھی گئی ہے جسے پی آئی اے نے اگست 2020 میں حکومت کی ہدایت پر ایک کروڑ فی کس کر دیا تھا۔"
آر ڈی اے پر دستخط کرانے سے متعلق پی آئی اے ترجمان نے کہا کہ یہ اسی طرح سے ہے جب بھی انشورنس کمپنی کسی بھی حادثے کی صورت میں معاوضے کی ادائیگی کرتی ہے تو وہ ایک آر ڈی اے سائن کراتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حادثے سے متعلق انہوں نے اپنی تمام لائیبیلیٹی ختم کر دی۔
کیا آر ڈی کے بغیر رقم مل سکتی ہے؟
پی آئی اے حادثہ متاثرین کے وکیل ایڈووکیٹ فرخ عثمان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس حادثے کے ایک مسافر کے ورثا نے ایک کروڑ کی رقم عدالت کے ذریعے بنا کسی آر ڈی اے پر دستخط کیے وصول کی ہے جب کہ اس وقت درجنوں ایسے کیسز عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔
ان کے بقول یہ وہ لائبیلیٹی رقم تھی جو پی آئی اے کو ہر صورت ادا کرنا تھی اس کے لیے سیکسیشن سرٹیفیکیٹس کی ضرورت تھی جو تمام ورثا نے پوری کی کیوں کہ وہ قانونی ضرورت تھی لیکن اس وقت تک آر ڈی اے کا ذکر نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ورثا کو ایک کروڑ روپے کی رقم کی ادائیگی کے وقت آر ڈی اے کو درمیان میں لایا گیا تو ورثا نے اس دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب انھیں اس کے لیے عدالتوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے وکیل شعیب اشرف کہتے ہیں کہ آر ڈی اے پر دستخط کیے بغیر بھی رقم کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ آر ڈی اے کی جو شرائط ہیں انہیں دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اس میں فریق کو کسی قانونی حق سے تو محروم نہیں کیا جا رہا۔
ان کے بقول اگر آر ڈی اے اس حد تک ہی ہے کہ انہیں جو رقم ادا کی گئی ہے اسے وصول کر لیا ہے تو اس پر دستخط کرنے میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ البتہ اس کے اندر شرائط ہیں تو اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
شعیب اشرف کے مطابق جن لوگوں نے آر ڈی اے پر دستخط کیا ہے وہ بھی مستقبل میں ذمہ داران کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں بلکہ ان پر جو قدغن لگائی گئی ہے اگر اس کے علاوہ کوئی چارہ ہے تو اس کو بھی انہیں حاصل کرنا چاہیے۔
یہ قانونی جنگ کب تک چلے گی؟
زرقا چوہدری کے مطابق اپنے پیاروں کو اپنے سامنے جلتے دیکھنا آسان نہیں۔ ابھی تو ہمیں تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار ہے تو ہم کسی آر ڈی اے پر دستخط نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ کسی انشورنس کمپنی کی یہ شرائط نہیں ہو سکتی کہ رقم کی وصولی کے ساتھ تمام اداروں کو کلین چٹ ایک دستخط کے ذریعے فراہم کر دی جائے۔
زرقا چوہدری کے بقول، "مجھے یہ جنگ ہر صورت لڑنی ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ اگر اس سے کسی اور کا بھلا ہوجائے، آنے والے وقت میں ذمہ داران کا تعین ہو جائے تاکہ فضائی سفر کا نظام درست ہو سکے۔"
الماس بانو کہتی ہیں ان کا جینے کا مقصد اب ختم ہو چکا ہے۔ ان کے بقول "میری بچی حادثے میں مر گئی آج اس کی ماں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، میں کبھی انصاف کے لیے گورنر ہاؤس جاتی ہوں تو کبھی پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو ارشد ملک سے ملنے جاتی ہوں، کبھی وزیرِ اعظم تو کبھی صدر سے ملنے کی درخواستیں لکھ لکھ کر بھیج رہی ہوں۔ لیکن کوئی سنوائی نہیں۔
الماس بانو نے کہا کہ ان کی بیٹی اپنی تنخواہ سے 22 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس اد کرتی تھی۔ آج یہ عالم ہے کہ ہم دینے والے ہاتھ تھے اب ہم لینے والے ہاتھ بن گئے ہیں۔ جب ایسا وقت آئے تو عزت نفس کتنی مجروح ہوتی ہے، اس کے ذمہ دار اس ملک کے تمام ادارے ہیں۔
الماس بانو کے بقول، "میں جانتی ہوں یہ سب مجھے تھکا دیں گے لیکن میں جب تک زندہ ہوں یہ جنگ لڑوں گی۔"