اسلام آباد ہائی کورٹ کے توہینِ عدالت کے نوٹس پر عمران خان کی پیشی پر اس مرتبہ ماضی کے مقابلے میں سخت ترین انتظامات دیکھنے میں آئے اور سابق وزیرِ اعظم کے کسی باڈی گارڈ کو کمرۂ عدالت میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
آج شدید گرمی اور حبس کا عالم تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت دیگر کیسز کی وجہ سے عمران خان کا کیس قدرے تاخیر سے دن ڈھائی بجے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ عمران خان کی پیشی کے منتظر کئی رپورٹر پہلے ہی پسینے سے شرابور ہوچکے تھے۔
اس موقعے پر میڈیا اور وکلا کو خصوصی پاسز جاری کیے گئے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کمرۂ عدالت تک آنے والے راستے میں چھ مقامات پر چیکنگ کے بعد جب ہم کمرۂ عدالت میں پہنچےتو کئی خالی کرسیاں نظر آئیں۔
عام طور پر ایسی کسی اہم پیشی پر عدالت میں وکلا کا اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اس لیے حبس اوربھیڑ میں کھڑے ہو کر کوریج کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرلیا تھا۔ ماضی میں کئی اہم کیسز کھڑے کھڑے کور کرنے کی مشق تو پہلے ہی تھی لیکن اس بار خالی کرسیاں دیکھیں تو خوش گوار حیرت ہوئی۔
ڈھائی بجے کے قریب عمران خان کے آمد کی اطلاع کے ساتھ ہی تھوڑا کچھ شور شرابا سنائی دیا۔ اس کے بعد عمران خان اپنی جماعت کے رہنماؤں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فیصل جاوید اور اعظم سواتی کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے اور خاموشی سے سائلین کے لیے رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔
SEE ALSO: توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان کی نااہلی کا تفصیلی فیصلہ جاری’صحافی حیران تھے‘
اس دوران صحافیوں نے کمرۂ عدالت میں عمران خان کو اکیلا دیکھا تو ان کے قریب ہونا شروع ہوگئے اور گپ شپ کرنے لگے۔ عمران خان پراعتماد نظر آ رہے تھے ۔ صحافیوں نے ان سے آج کے کیس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ میں نے تو لیگل ایکشن کی بات کی تھی۔
اس دوران ایک صحافی نے جب ان سے سوال کیا کہ آپ نے ابھی تو عبوری جواب جمع کرایا ہے۔ کیا حتمی جواب میں معافی مانگیں گے ؟ اس پر عمران خان نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اچھا ابھی صرف عبوری جواب ہے؟ جواباً کیے گئے ان کے اس سوال کے بعد صحافی بھی حیران تھے۔
اس دوران ایک صحافی نے جب عمران خان سے پوچھا کہ آپ نے گزشتہ سماعت پر کہا تھا کہ بڑا خطرناک ہوں۔ تو انہوں نے کہا کہ میں نے اس صحافی کو کہا تھا جو ہر جگہ پر مجھے اکسا کر سخت جملے کہنے پر مجبور کرتاہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ مجھ سے بار بار الٹے سیدھے سوال پوچھ رہا تھا اس لیے میں نے مذاق میں کہا کہ میں بہت خطرناک ہوگیا ہوں۔
عمران خان کے دورِ حکومت کا تذکرہ
اس پر شاہ محمود قریشی ان کی مدد کو آگے آئے اور صحافیوں سے کہا کہ جناب ابھی معاملہ زیرِ سماعت ہے، لہذا اس پر بات نہ کریں۔ سماعت مکمل ہونے دیں پھر بات کریں گے۔
اس دوران کورٹ کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے عمران خان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جس پر عمران خان نے جلد ملنے کا کہا۔
عدالت میں ججز کی آمد پر عمران خان احترام میں کھڑے ہوگئے۔ دورانِ سماعت عمران خان بغور تمام کارروائی سنتے رہے اور جسٹس اطہر من اللہ کے بعض سخت جملوں پر متفکر ہوکر ادھر ادھر بھی دیکھتے رہے۔
آخر میں جب عدالتی معاونت کے لیے وکلا کے نام سامنے آئے تو عمران خان نے قریب کھڑے ایڈووکیٹ حسان نیازی کو پاس بلا کر انہیں بتایا کہ منیر اے ملک کے نام پر وہ مطمئن ہیں۔
سماعت میں عمران خان کے وکیل حامد خان نے کئی مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی لیکن جسٹس اطہر من اللہ نے انہیں بہت کم بات کرنے کا موقع دیا ۔
ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے بات کرنے کی کوشش کی، تو اطہر من اللہ نے انہیں سختی سے بات کرنے سے روک دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے تشدد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے دورِ حکومت کے واقعات کا تذکرہ بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب لاپتا افراد ، بلوچ طلبہ کی بات ہوتی تھی تو حکومت کوئی جواب ہی نہیں دیتی تھی۔ اگر یہ مسئلہ اس وقت حل ہو جاتا تو آج آپ کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
’عمران خان جو ہوئے‘
عدالت نے عمران خان کو سات روز کے اندر توہینِ عدالت کے نوٹس پر از سر نو جواب جمع کرانے کی مہلت دی اور سماعت اختتام کو پہنچی۔
سماعت ختم ہونے کے بعد عمران خان کمرۂ عدالت سے نکلے تو ویسی دھکم پیل نہیں ہوئی جو ماضی میں دیکھنے میں آتی تھی۔
عمران خان کے محافظوں نے انہیں حصار میں لیا اور عدالت کے احاطے سے باہر لے گئے۔
سو میٹر کے فاصلے پر مین گیٹ تک صحافی سوالات کرتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے لیکن عمران خان نے کسی بات کا جواب نہیں دیا اور عدالت سے روانہ ہوگئے۔
اس کے بعد ایک صحافی نے مجھ سے کہا کہ عمران خان کو آج جو سہولت ملی، ماضی میں توہینِ عدالت کے نوٹسز پر پیش ہونے والوں کو نہیں ملی اور پھر خود ہی کہنے لگے’خیر ،عمران خان جو ہوئے!‘