سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ہمراہ پاکستان روانگی کے لیے دبئی ایئرپورٹ کے ٹرمینل نمبر دو پر پہنچا تو وہاں پہلے سے افراد بورڈنگ کے لیے موجود تھے۔
اس خصوصی پرواز کے لیے فلائی دبئی نے اپنے 10 کاؤنٹرز مختص کر رکھے تھے جہاں پر پہنچنے والے افراد ایک دوسرے سے حال احوال بھی دریافت کرتے رہے۔
بورڈنگ کارڈ لینےکے بعد مختلف ممالک سے آئے ہوئے لیگی رہنماؤں اور صحافیوں کے ہمراہ لاؤنچ میں پہنچا تو وہاں کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔
لاؤنج میں لگے فلائٹس کے معلوماتی بورڈ سے معلوم ہوا کہ پرواز آدھا گھنٹہ تاخیر سے اب نو بجے روانہ ہو گی۔
صحافی دوست اپنی ویڈیوز اور ٹی وی رپورٹنگ کرنے لگے اور وہاں پہنچنے والے بعض لیگی رہنماؤں سے گفتگو کرتے رہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ کے سوال پر کہ نواز شریف کا اب الیکشن میں بیانیہ کیا ہو گا؟ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ اب بھی 'ووٹ کو عزت دو' ہے۔
لاؤنج میں ایک اجتماع اور صحافیوں کو رپورٹنگ کرتے ہر گزرنے والا شخص غور سے دیکھتا اور بعض لوگ اپنی حیرت دور کرنے کے لیے پوچھتے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔
گہما گہمی زیادہ بڑھی تو پروٹوکول کے افراد نے آ کر لوگوں کو لاؤنج میں لگی نشستوں پر بیٹھنے کی تاکید کی۔ کافی جتن کے بعد پروٹوکول کے افراد ل، وگوں کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوئے۔
اسی اثنا میں نعرے لگنا شروع ہوئے، دیکھا تو نواز شریف لاؤنج میں داخل ہو رہے تھے۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی میاں ناصر جنجوعہ ان کے ہمراہ تھے جب کہ سینیٹر عرفان صدیقی نے ان کا استقبال کیا۔
نواز شریف شلوار سوٹ میں ملبوس تھے اور کوٹ کے ساتھ مفلر بھی ڈل رکھا تھا۔ چہرے پر لگا ماسک کچھ نیچے اترا ہوا تھا اور نواز شریف مسلسل منہ چلا رہے تھے جیسے کچھ چبا رہے ہوں۔
SEE ALSO:
چار سال قبل نواز شریف کن حالات میں لندن گئے تھے؟رپورٹر ڈائری؛ جب نواز شریف کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا نواز شریف کو وطن واپسی پر کن مقدمات کا سامنا ہو گا؟ نواز شریف کی چوتھی واپسی؛ سابق وزیرِ اعظم نے کب کب سیاست میں کم بیک کیا؟نواز شریف کارکنوں کے نعروں پر ہاتھ ہلاتے ہوئے فلائی دبئی کے بزنس کلاس لاؤنج میں چلے گئے۔
وہاں موجود تمام صحافی بھی لاؤنج کے داخلی دروازے پر جمع ہو گئے کیوں کہ انہیں بتایا گیا کہ نواز شریف صحافیوں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
کچھ بدمزگی اور تکرار کے بعد صحافی لاؤنج میں داخل ہوئے تو نواز شریف ہال کے آخر میں لگی نشستوں پر بیٹھے تھے جب کہ سینٹر عرفان صدیقی اور میاں ناصر جنجوعہ بالترتیب ان کے بائیں اور دائیں جانب براجمان تھے۔
نواز شریف نے پریس کانفرنس کا آغاز کیا تو ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ صورتِ حال کو کچھ سنبھالتے ہوئے نواز شریف نے خود سے باری باری کچھ صحافیوں کو سوال کرنے کا کہا۔
اپنی بات چیت میں نواز شریف کافی محتاط دکھائی دیے اور الفاظ کا چناؤ بھی کافی سوچ کر کرتے رہے۔
الیکشن میں تاخیر کے حوالے سے ایک سوال پر نواز شریف نے کہا ابھی حلقہ بندیاں ہو رہی ہیں اور انہیں اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ قبول ہو گا۔
چند سوالات کے جواب دینے کے بعد نواز شریف نے مزید گفتگو نہ کرنے کا کہا جس پر وہاں موجود عملے نے صحافیوں کو رخصت ہونے کا کہا۔
Your browser doesn’t support HTML5
چلتے چلتے نواز شریف سے انٹرویو کا کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ "آپ سخت سوالات کرتے ہیں۔"
نواز شریف کے ساتھ اس خصوصی پرواز میں سفر کرنے والے صحافیوں میں بعض لندن سے ان کے ہمراہ آ رہے تھے جب کہ بہت سے پاکستان سے آئے تھے۔
صحافیوں کے لاؤنج سے باہر جانے پر وہاں موجود کارکن داخلی دروازے پر جمع ہو گئے کیوں کہ انہیں کہا گیا تھا کہ نواز شریف مختلف ممالک سے آئے ہوئے کارکنوں اور رہنماؤں کے ساتھ گروپ فوٹو بنوائیں گے۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کے ذمے داران کی بدانتظامی کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ پروٹوکول عملے نے راستے کو دوبارہ سے خالی کروانا شروع کیا اور نواز شریف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چلتے ہوئے رن وے کی طرف روانہ ہوئے۔
وہاں موجود گاڑی میں نواز شریف جہاز تک پہنچے اور سیڑھیوں سے جہاز میں داخل ہوئے۔
جہاز کے عملے کی بار بار تاکید اور اعلانات کے باوجود مسافر اپنی نشستوں پر بیٹھنے کو تیار نہیں تھے۔ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور عملے کے بار بار اعلان کے بعد نواز شریف خود بھی پارٹی کارکنان کو نشستوں پر بیٹھنے کا کہتے رہے۔
اس ساری صورتِ حال میں جہاز کا عملہ کافی پریشان ہوا اور انہیں لوگوں کو نشستوں پر بٹھانے اور سامان رکھنے میں کافی مشکلات رہیں۔
جیسے تیسے مسافروں کو ناشتہ دینے کے بعد جہاز کا عملہ چائے اور کافی دینے کے لیے آیا لیکن صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے واپس چلے گیا۔
عملے کے ایک رُکن کا کہنا تھا کہ ہم چائے، کافی نہیں دے سکتے کیوں کہ راستے میں افراد کھڑے ہیں جو ہمیں کام نہیں کرنے دے رہے۔
جہاز میں موجود افراد اور صحافیوں نے بھی کوشش کی کہ نواز شریف سے الگ سے ملاقات ہو سکے تاہم کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور سابق وزیرِ اعظم کے پروٹوکول اسٹاف نے کسی کو بزنس کلاس کی طرف جانے نہ دیا۔
جہاز میں موجود کارکنان میں بے چینی بڑھی اور انہوں نے نواز شریف کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اسی اثنا میں یہ آواز سنائی دینے لگی کہ نواز شریف سب سے ان کی نشستوں پر آ کر ملیں گے لیکن کارکنوں کی یہ خواہش خواہش ہی رہی۔
جہاز کے کاک پٹ سے جب اعلان ہوا کہ جہاز اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والا ہے تو جہاز میں ایک بار پھر سے نعرے لگناشروع ہو گئے۔
یہ خصوصی پرواز پاکستان کے وقت کے مطابق ایک بج کر 37 منٹ پر اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈ کر گئی اور یہاں سے امیگریشن کے مرحلے کہ بعد جہاز ان مسافروں کو لے کر لاہور کے لیے روانہ ہو گیا۔