پاکستان میں کئی برس سے سرگرم شدت پسند گروہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ حکومت مذاکرات میں مصروف ہے تا کہ اس تنظیم کو خلافِ قانون سرگرمیوں سے باز رکھا جا سکے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں موجود متعدد سرکاری حکام نے جمعے کو تصدیق کی کہ پاکستان کے حکام اور ٹی ٹی پی میں مذاکرات افغانستان میں جاری ہیں۔ افغانستان کے نئے حکمران طالبان اس عمل میں معاونت کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایک عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مذاکرات اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی ہے البتہ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
ایک اور ذریعے سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس مذاکراتی عمل کا مقصد ٹی ٹی پی کے ان جنگجوؤں کو پاکستان کے آئین اور قانون کے تابع لانا ہے جنہوں نے ریاست کے خلاف بڑے جرائم نہیں کیے۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کے لیے مجوزہ معافی بھی ملک کے آئین کے مطابق زیرِ غور ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم کے نیشنل سیکیورٹی کے مشیر معید یوسف نے واشنگٹن میں قائم میڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے تحت منعقد ہونے والی ورچوئل تقریب میں جمعرات کو ان مذاکرات کا دفاع کیا۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے ماضی میں بھی ایسے مذاکرات کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام ریاستوں کو بات چیت کرنی چاہیے اور اگر کوئی ایسے راستے ہیں کہ اپنے ہی شہریوں کو قانون کے تابع لایا جا سکے تو انہیں ایسا کرنا چاہیے۔
تاہم انہوں نے ان مذاکرات سے متعلق میڈیا پر آنے والی افواہوں کو رد کیا۔
معید یوسف کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ ان مذاکرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور مذاکرات کا کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں تبدیلی آئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ صورتِ حال بہتر ہو۔
معید یوسف کا مزید کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ حکام ٹی ٹی پی کو باور کرا سکیں گے کہ پاکستان کا ایک آئین ہے جس کے تحت اگر انہوں نے رہنا ہے تو ان کے لیے ہی بہتر ہو گا۔
پاکستانی انگریزی اخبار 'ڈان' نے جمعے کو رپورٹ کیا تھا کہ ایک عارضی مفاہمت دونوں فریقین کے درمیان طے پا گئی ہے جس کے تحت پاکستان کی جیلوں سے نامعلوم تعداد میں قیدیوں کی رہائی کے بدلے ٹی ٹی پی ملک بھر میں جنگ بندی کا اعلان کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ کے مطابق ایک ماہ پر مبنی اس معاہدے کا آغاز قیدیوں کی رہائی کے بعد سے ہو گا جس کے بعد ممکنہ طور پر فریقین کے درمیان بڑے معاہدے کے لیے ماحول بن سکے گا تا کہ پاکستان میں دو دہائیوں سے جاری پر تشدد کارروائیوں کو ختم کیا جا سکے۔
گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں پہلی بار کہا تھا کہ حکومت ٹی ٹی پی کے کچھ گروہوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا تھا کہ افغانستان ان مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے جب کہ افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کے عسکریت پسند اتحاد ٹی ٹی پی نے وزیرِ اعظم کے اس دعوے کی تردید کی تھی جب کہ اس کے بعد نہ تو افغان طالبان اور نہ ہی ٹی ٹی پی کی طرف سے اس دعوے سے متعلق کوئی تبصرہ سامنے آیا ہے۔