امریکہ کے دورے پر آئے پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جمعرات کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ سربراہی اجلاس سے اپنا پہلا خطاب کریں گے۔
اس سے قبل وہ امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیخش کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ ترکی، افغانستان، اردن سمیت دنیا کے کئی ممالک کے راہنماؤں سے سائیڈ لائن ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی بزنس فورمز اور پاکستانی وفود سے بھی ملاقاتیں رہی ہیں۔
بدھ کی وزیرِاعظم عباسی کی مصروفیات میں ان کا ایک اہم خطاب کونسل آن فارن ریلیشنز میں تھا جس میں انہوں نے پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ ہیئت اور آئندہ کے امکانات، افغانستان کے مسئلے کے حل میں پاکستان کے کردار اور پاکستان کی توقعات، بھارت کے افغانستان میں کردار، بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور ملکی سطح پر گورننس سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس فورم میں مختلف یونیورسٹیوں، تھنک ٹینکس، میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی اور مختلف امور پر ان سے سوالات بھی کیے۔
وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی جو امریکہ سے ہی تعلیم یافتہ ہیں، وہ کس حد تک موثر انداز میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں، ان کے دلائل کتنے جاندار ہیں اور کس اعتماد کے ساتھ وہ بات کر رہے ہیں، اس بارے میں جانتے ہیں کچھ ان صحافیوں کی رائے جو ان کے اس دورے کی کوریج کر رہے ہیں۔
مسعود حیدر سینئر صحافی ہیں اور پاکستان کے انگریزی اخبار 'ڈان' کے نیویارک میں نمائندہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں،
’’وزیراعظم کی بدھ کو کونسل آن فارن ریلیشنز میں گفتگو ’’آوٹ آف ڈیپتھ‘‘ یعنی گہرائی سے خالی تھی۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ کئی سوالوں کے جوابات کے لیے تیار نہیں تھے اور لگتا ہے کہ کئی ایشوز پر انہیں جیسے مناسب بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔ وہ اپنی گفتگو میں بہت محتاط رہے۔ شایداس لیے کہ انہیں خود نہیں معلوم کہ ان کی وزارت عظمیٰ کا دورانیہ کتنا ہے۔ اس طرح لگتا ہے کہ وہ لندن میں موجود پارٹی کی قیادت کا دباؤ بھی محسوس کر رہے تھے۔‘‘
ناصر قیوم چینل 'ٹوئنٹی فور' کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں، ’’کئی ایسے موقعے تھے جہاں وزیراعظم بہتر انداز میں موقف پیش کر سکتے تھے لیکن وہ اس میں خاطر خواہ کامیاب نہیں رہے۔ جیسے ان سے پاکستان کے اندر اہانتِ مذہب پر سزاؤں کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ بتا سکتے تھے کہ آج تک کسی بڑی عدالت سے کسی بھی شخص کو سزا نہیں ملی جو ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں اس قانون پر عمل درآمد میں تمام باریکیوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کے جوہری فضلے کو جب ٹھکانے لگانے کی بات پوچھی گئی تو وہ اس بارے میں بھی کچھ بھی بتانے سے قاصر تھے۔ ہاوس ان آرڈر کا مطلب پوچھا گیا تو بظاہر لگا کہ وہ اپنے پہلے بیان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اور ان کی تشریح موثر نہیں تھی کہ اس کا مطلب پاکستان کی قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ پاکستان کی فوج اور عوام نے کیا قیمت چکائی ہے۔"
جاوید اقبال، مشرق ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مختلف فورمز پر خیالات کو بہت سراہتے ہیں۔
’’میرے خیال میں میاں نواز شریف جو ملک کے وزیرخارجہ بھی تھے، وہ کئی ایشوز پر بوجوہ بات نہیں کرتے تھے۔ ان کے برعکس شاہد خاقان عباسی نے ہر معاملے پر بات کی ہے اور موثر انداز میں پاکستان کا نقطہ نظر پہنچایا ہے۔ ان کو شاید یہ فائدہ بھی حاصل ہے کہ افغانستان پر ٹرمپ پالیسی جیسے معاملات سمیت کئی قومی امور پر اس وقت پاکستان کی ملٹری اورسول اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پرنظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان معاملات پر بات کرنا وزیراعظم عباسی کے لیے مشکل نہیں۔ امریکہ کو پاکستان سے اس شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ لگتا ہے کہ امریکہ پاکستان جیسے دوست سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔ ‘‘
انوراقبال ڈان اخبار کے ساتھ منسلک سینئر صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کونسل آن فارن ریلیشنز میں ان کا خطاب متاثر کن نہیں تھا مگر بہت برا بھی نہیں تھا۔ تجربے کی کمی نظر آئی۔ ان کی گفتگو سے 'ان سیکیورٹی کا احساس' نمایاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس قدر کم بولے کہ بعض اوقات سوالات لمبے تھے اور جوابات محدود۔"
بعض صحافیوں کے خیال میں جس طرح ایک سیاست دان ’’پنچ لائنز" کے ساتھ نسبتا جارحانہ انداز میں اپنا موقف بیان کیا کرتا ہے یا ایک سفارت کار دلائل اور اصطلاحات کے ساتھ تاویلیں پیش کرتا ہے، وزیراعظم ان دونوں کے بین بین کردار ادا کرتے رہے لیکن وہ نہ تو ایک ’’ شیریوڈ‘‘ سیاستدان دکھے نہ منجھے ہوئے سفارت کار۔۔۔ ہاں محتاط انداز گفتگو میں وہ کسی طرح کے تنازعے سے بچنے میں کامیاب رہے۔ اگر ان کے لہجے کی غیر ضروری حد تک نرمی اور اختصار سے صرفِ نظر کر کے ان کی گفتگو کو اسکرپٹ کی صورت پڑھا جائے تو کارکردگی اچھی ہی لگے گی۔