وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام ’’پاکستان کی اولین ترجیح ہے‘‘، جس کے حصول کے لیے، پاکستان افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے‘‘۔
وزیر اعظم نے یہ بات نیو یارک میں ’کونسل آن فارین رلیشنز‘ کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جسے انٹرنیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں، وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ پاکستان کسی طور پر کسی دہشت گرد گروپ کی کارروائی برداشت نہیں کرے گا، اور واضح کیا کہ ’’پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’حملہ آور سرحد پار افغانستان سے داخل ہو کر پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’پاکستان کسی قسم کی تفریق کے بغیر تمام دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کے خلاف نبردآزما ہے‘‘، اور یہ کہ ''اس جنگ کو مؤثر طریقے سے اور اپنے وسائل سے لڑا جا رہا ہے''۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ٹھوس ’بارڈر منیج منٹ‘ کے ذریعے دو طرفہ سرحد کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے، جس ضمن میں، کوششیں جاری ہیں اور افغانستان کو شریک ہونے کی پیش کش کی گئی ہے۔
افغانستان میں امن و استحکام کے لیے بھارت کے کردار کے بارے میں ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ کسی قسم کا کردار ’’صفر‘‘ کے برابر ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ماضی میں بھارت نے افغانستان میں بحالی کے کام میں سرمایہ کاری کی ہے، لیکن بھارت کا کوئی اور کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑ رہا ہے، جب کہ ہم اس لڑائی میں دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا حصہ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستان کے 6500 فوجی اہل کاروں نے جانیں دیں، جب کہ 20000 سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔
خاقان عباسی نے کہا کہ 17 برسوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، پاکستانی معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔
ایک صحافی کا کہنا تھا کہ 2001ء سے 2013ء کے دوران، فوجی امداد میں پاکستان کو امریکہ سے 23 ارب ڈالر ملے، جس پر وزیر اعظم نے بتایا کہ اس وقت فوجی امداد ''انتہائی محدود ہے''۔ بقول اُن کے، ’’اُن برسوں کے دوران، 10 لاکھ سے زیادہ ’سورٹیز‘ ریکارڈ پر ہیں، جب کہ اتحادی افواج کے لیے ساز و سامان کی آمد و رفت پاکستان کی سر زمین سے ہوتی رہی، جس کے لیے پاکستان نے کبھی کسی رقم کے حصول کا کوئی تقاضا نہیں کیا‘‘۔
دوسری جانب، اُنھوں نے کہا کہ سول شعبہ جات میں ’یو ایس ایڈ‘ نے ’’انتہائی شاندار‘‘ کام کیا ہے۔
اس سوال پر اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام عالمی اصولوں کا پابند ہے، جس کا ’کمانڈ اینڈ کنٹرول‘ مستعد اور پُرعزم ہاتھوں میں ہے، جس پر شک کی گنجائش نہیں۔ اور ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ثابت ہوا ہے؛ اور مزید کہا کہ پاکستان کے ''جوہری اثاثے محفوظ ہاتھوں میں اور سولین کی نگرانی میں ہیں''۔
امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ ملاقات کے بارے میں، شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف رائے پر بھی بات ہوئی؛ اور اس توقع کا اظہار کیا کہ ’’بات چیت کے ذریعے تعمیری پیش رفت ہوگی‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ امریکہ پاکستان تعلقات 70 سال پرانے ہیں، جن میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ سے اختلافات ہیں، لیکن پالیسی میں بہتری کےحصول کے لیےبات چیت جاری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کوئی امریکی فوجی اڈا نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہمیں امداد نہیں چاہیئے بلکہ بین الاقوامی منڈیوں میں رسائی درکار ہے۔ پاکستان کی شرح نمو 5.3 فی صد ہے، جب کہ کوششیں جاری ہیں کہ اسے 6 فی صد سالانہ کی سطح پر قائم رکھا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ ماہرین کی رائے میں، سنہ 2030 تک پاکستان کی معیشت دنیا کی 20 چوٹی کی معیشتوں میں شامل ہوگی۔
ڈرون سے متعلق ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ ’’پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کا احترام لازم ہے، اور پاکستانی پارلیمان نے کسی ڈرون کارروائی کے خلاف قرارداد منظور کی ہوئی ہے‘‘۔
طالبان کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ ’’بنیادی حقیقت یہ ہے کہ طالبان دراصل افغان ہیں‘‘۔
بھارت سے تعلقات سے متعلق اُنھوں نے کہا کہ ’’دونوں ملکوں کے درمیان امن کی راہ میں کشمیر کا مسئلہ حائل ہے، جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ماضی کی قراردادوں کے تحت حقِ خود ارادیت کے اصول پر عمل درآمد کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے‘‘۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے متعلق سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے مروجہ قوانین و ضابطوں کی خلاف ورزی کی، اور قید میں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ صحتمند ہیں اور اپنے اہل خانہ سے ملتے رہتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اسامہ بن لادن کا پتہ تھا تو اُنھیں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کو بتایا چاہیئے تھا۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے اسامہ کے خلاف کارروائی کے معاملے پر پاکستان کو اعتماد میں لینا چاہئیے تھا۔
بینظیر بھٹو کی ہلاکت، مقدمے اور سزا کے بارے میں ایک سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ عدالت نے حال ہی میں فیصلہ سنایا ہے، جسے پیپلز پارٹی نے عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ وزیر اعظم نے بینظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ''ایک عظیم سیاست دان تھیں''، اور ''اُن کی ہلاکت ایک بڑا سانحہ تھا''۔
اس سے قبل، وزیر اعظم نے ’یو ایس پاکستان بزنس کونسل‘ کی جانب سے دیے گئے دوپہر کے کھانے میں شرکت کی۔
بدھ کو وزیر اعظم نے عالمی بینک کی ’سی اِی او‘، کرسٹا لینا جورجیوا سے ملاقات کی۔ بعدازاں، امن کی نابیل انعام یافتہ، ملالہ یوسف زئی نے وزیر اعظم سے ملاقات کی۔
جمعرات کی شام، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔