|
پشاور _ خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر شکیل خان کی کابینہ سے برطرفی کے بعد حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی اندرونی صفوں میں ہلچل مچ گئی ہے جب کہ پارٹی کے بانی عمران خان نے معاملے کو عوام میں نہ لانے کی ہدایت کی ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ کمیونی کیشن اینڈ ورکس شکیل خان کے مستعفی ہونے یا کابینہ سے بدعنوانی کے مبینہ الزام کے باعث سبکدوش کرنے پر ان کے قریبی ساتھی اور بعض پارٹی رہنماؤں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
مردان سے رکنِ قومی اسمبلی عاطف خان اور مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی جنید اکبر خان نے شکیل خان کی برطرفی کو سزا سے تعبیر کیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ شکیل خان نے خیبر پختونخوا حکومت میں مالی بدعنوانی اور بعض وزرا کے اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق بانی چیئرمین عمران خان کو آگاہ کیا تھا۔
چند روز قبل شکیل خان نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ انہوں نے پارٹی چیئرمین کو بتایا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ صوبے میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔
مذکورہ پریس کانفرنس کے بعد شکیل خان نے جمعرات کی شب کابینہ سے استعفیٰ دینے کی تصدیق کی تھی اور بتایا تھا کہ انہوں نے اپنا استعفی بذریعہ واٹس ایپ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھجوا دیا ہے۔
شکیل خان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے استعفے کی وجوہات پر اسمبلی میں تفصیلی بات کریں گے۔
SEE ALSO: پی ٹی آئی سے کشمکش، فوج کے مورال پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق شکیل خان کے خلاف بد عنوانی اور بد انتظامی کی شکایات تھیں اور یہ شکایات عمران خان تک بھی پہنچیں تھیں جب کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے احتساب کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی سفارشات پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی ہدایت کے مطابق جس پر بھی کرپشن کا الزام ہوگا تو تحقیقات ہو گی اور احتساب کی کمیٹی حکومت سے ماورا ہو کر پارٹی سطح پر بھی تحقیقات کرسکتی ہے۔
تاہم عاطف خان نے جمعے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ شکیل خان کو سازش کے تحت صوبائی کابینہ سے ہٹایا گیا ہے، اگر وہ کرپٹ ہوتے تو عمران خان انہیں ملاقات کے لیے جیل نہ بلاتے۔
شکیل خان کی کابینہ سے برطرفی کا معاملہ ہفتے کو اڈیالہ جیل میں عمران خان کی صحافیوں سے گفتگو کے دوران بھی سامنے آیا۔
عمران خان نے کہا کہ عاطف خان اور جنید خان کو پیغام ہے کہ وہ بدعنوانی کے معاملے پر احتساب کی کمیٹی سے ملیں اور اس معاملے کو بلاوجہ عوام میں لے کر نہ جائیں۔
SEE ALSO: اڈیالہ جیل میں عمران خان کی سہولت کاری کا الزام: سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ زیرِ حراستعمران خان نے سینئر رہنماؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پہلے یہ دیکھیں کہ اینٹی کرپشن کمیٹی نے شکیل خان کی برطرفی کا قدم کیوں اٹھایا۔
واضح رہے کہ عمران خان کی تشکیل دی گئی احتساب کی کمیٹی میں سابق چیئرمین نیب بریگیڈیئر ریٹائرڈ مصدق، سینئر وکیل قاضی انور اور شاہ فرمان شامل ہیں۔
عمران خان کے مطابق تینوں کمیٹی ارکان غیر جانبدار ہیں اور وہ بہتر فیصلہ کریں گے۔
تاہم وائس آف امریکہ نے احتساب کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں جمع کرائے گئے شکیل خان کے بیان تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ اس بیان میں انہوں نے محکمہ کمیونی کیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) کے سابق سیکریٹری کی مبینہ بد عنوانی، بدانتظامی اور وزیرِ اعلیٰ کی مبینہ مداخلت کا ذکر کیا ہے۔
بیان کے مطابق مئی اور جون میں تعمیراتی کاموں کی ادائیگی کے سلسلے میں سیکریٹری سی اینڈ ڈبلیو نے علم میں لائے بغیر مختلف اوقات میں چھ ارب 87 کروڑ روپے کا فنڈ جاری کیا لیکن فنڈز ریلیز کرنے میں دس سے بیس فی صد کمیشن مانگے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
شکیل خان کون ہیں؟
خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے شکیل خان کا شمار پی ٹی آئی کے سرکردہ اور متحرک رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ 2013 سے اب تک تیسری بار مسلسل صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔
شکیل خان سابق وزرائے اعلیٰ پرویز خٹک اور محمود خان کی کابینہ کا بھی حصہ رہ چکے ہیں اور ان کا تعلق قومی اسمبلی کے موجودہ پی ٹی آئی ارکان عاطف خان اور شہرام خان ترکئی پر مشتمل حریف گروپ سے ہے۔
خیبر پختونخوا کے دو سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں عرفان خان اور شاہد حمید نے شکیل خان کی کابینہ سے علیحدگی کو وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عرفان خان کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کو راہِ راست پر لانے کے لیے علی امین گنڈاپور کو اہم عہدہ دینے کی حکمتِ عملی اب کسی اور راہ پر چلتی دکھائی دیتی ہے۔
شاہد حمید کا کہنا ہے کہ عمران خان کے جیل میں رہنے سے پارٹی کی اندرونی صفوں میں اختلافات گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں جب کہ کئی رہنما مرکزی عہدیداروں بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب خان سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
شکیل خان کو کابینہ سے برطرف کیے جانے کے معاملے پر بظاہر تو صوبائی وزرا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکانِ صوبائی اسمبلی خاموش ہیں لیکن اطلاعات ہیں کہ پانچ وزرا اور لگ بھگ 25 ارکانِ اسمبلی کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف علم بغاوت بلند ہو سکتا ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے شکیل خان کی برطرفی پر کہا ہے کہ صوبائی حکومت کرپشن بے نقاب کرنے پر شکیل خان کو عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ ان کے بقول پی ٹی آئی میں جو بھی کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس کا یہی انجام ہوتا ہے۔