پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 2023 کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دو ماہ کے دوران سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں پاکستانی فوج کے میجر سمیت سات اہل کار جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوں تو بلوچستان میں شورش تین دہائیوں سے جاری ہے۔ لیکن بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے فورسز پر حملوں میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔
بلوچستان کے ضلع شیرانی میں اتوار کو پولیس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کی چوکیوں پر حملے میں چار اہل کار ہلاک ہو گئے۔
رپورٹس کے مطابق ضلع شیرانی کے علاقے دانہ سر کے مقام پر پولیس اور ایف سی کی الگ الگ قائم چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
حملہ آوروں نے پہلے دستی بم پھینکے اور بعد ازاں فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں تین پولیس اہل کار اور ایک ایف سی اہل کار ہلاک ہوئے۔
سیکیورٹی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق فائرنگ کا تبادلہ لگ بھگ دو گھنٹوں تک جاری رہا۔
اس دوران ایک مبینہ حملہ آور بھی مارا گیا تاہم سیکیورٹی اداروں کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے حملہ آوروں کو ان کے ساتھی ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔
سیکیورٹی فورسز پر دوسرا حملہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب پیش آیا۔
ذرائع کے مطابق فورسز دہشت گردوں کی نقل وحرکت کی انٹیلی جینس اطلاعات پر پہاڑی علاقے بلور کولواہ میں آپریشن میں مصروف تھے کہ فائرنگ کے تبادلے میں فوج کے ایک میجر ثاقب حسین اور نائیک باقر علی ہلاک ہو گئے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا بلوچستان میں خواتین خود کش حملہ آور بڑے خطرے کا باعث بن سکتی ہیں؟
تجزیہ کار اور سینئر صحافی فخر کاکا خیل کہتے ہیں کہ بلوچستان میں کچھ عرصے کے دوران دو خواتین کی جانب سے خودکش حملوں کے باعث بظاہر صورتِ حال خراب نظر آتی ہے۔
ان کے بقول "اس سے زیادہ نقصانات کا امکان تو فی الوقت نظر نہیں آتا لیکن اس کی علامتی اہمیت زیادہ ہے اور اس سے مزید بھرتیوں میں تیزی آ سکتی ہے۔"
بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے ) کے مجید بریگیڈ نے خواتین خود کش حملہ آوروں کا ایک اسکواڈ بنا رکھا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پر حملے کے بعد گمان یہی تھا کہ اب کوئی اور خاتون خود کش حملہ آور سامنے نہیں آئے گی۔ لیکن تربت میں پولیس وین کے قریب خود کش حملہ کرنے والی سمیعہ بلوچ کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزید خواتین بھی اس اسکواڈ میں شامل ہو رہی ہیں۔
کیا بلوچستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کا الحاق بڑا خطرہ ہے؟
فخر کاکا خیل کے مطابق جنگجوؤں نے جب افغانستان میں پناہ لی تو اس وقت وہاں پہلے سے موجود بلوچ مزاحمت کاروں سے ان کے رابطے بحال ہوئے۔
اُن کے بقول بلوچ مزاحمت کاروں کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف کاروائیوں کے لیے اسلحہ، تربیت اور افرادی قوت کی ضرورت تھی جب کہ تحریک طالبان کو بلوچستان میں سہولت کاروں کی اس لیے دونوں کا ملاپ یقینی ہوا۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق جب تک بلوچستان میں پائیدار امن کی کوششیں نہ کی جائیں اسی طرح دونوں طرف سے لوگ مارے جاتے رہیں گے۔
ان کے مطابق اس کے زیادہ ذمے دار وہ لوگ ہیں جو پارلیمان میں بیٹھے ہیں اور مراعات لے رہے ہیں، لیکن صوبے کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کرتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سال 2023 کی پہلی ششماہی: دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ
رواں برس پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 79 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
'پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹیڈیز کی رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے پہلے چھ ماہ کے دوران دہشت گردی کے 271 واقعات میں 389 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 151 حملوں میں 293 افراد ہلاک ہوئے تھے۔چھ ماہ کے دوران سیکیورٹی فورسز نے مختلف کارروائیوں میں 236 دہشت گردوں کو ہلاک جب کہ 295 کو حراست میں لیا۔
سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبرپختونخوا رہا، جہاں دہشت گردی کے 174 واقعات ہوئے جن میں 266 ہلاکتیں ہوئیں۔
بلوچستان میں 2023 کی پہلی ششماہی میں دہشت گردی کے 75 واقعات رپورٹ ہوئے جن کے نتیجے میں 100 افراد مارے گئے ہیں۔
SEE ALSO: بلوچ علیحدگی پسند خواتین کو خود کش حملوں کے لیے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟
اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران دہشت گردی کے حملوں میں پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 103 فی صد اضافہ ہوا۔
بلوچستان میں رواں برس کی پہلی ششماہی میں گزشتہ سال کی پہلی اور دوسری ششماہی کے مقابلے میں جانی نقصان میں بالترتیب 61 فی صد اور 64 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
فخر کاکا خیل کے بقول بلوچستان میں دہشت گردی کےخدشات پہلے سے موجود تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلے سے احساس تھا، اس لیے وقتاً فوقتاً بلوچستان میں عسکریت پسندی کے خلاف کامیاب آپریشن کیے گئے۔
اُن کے بقول افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کے کنٹرول کے بعد حالات نے جس تیزی سے پلٹا کھایا، بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔