پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں اور حملوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رواں برس کے ابتدائی نو ماہ میں سات سو سے زائد سیکیورٹی اہل کار اور شہری دہشت گردی کی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی ہفتے کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان اور شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں خود کش حملوں اور دہشت گردوں کے حملوں میں ہونے والی کم از کم 69 ہلاکتوں کے ایک دن بعد شائع کی گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری کسی بھی عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔
ہفتے کو سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق 2022 کے مقابلے میں رواں سال دہشت گردوں کے حملوں سے ہونے والی اموات کی تعداد میں 19 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے دو صوبوں میں ہونے والی اموات میں سے 92 فی صد رپورٹ کی گئیں۔
سی آر ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے 2023 کے پہلے نو ماہ میں کم از کم 386 اہل کاروں کو کھویا جو کہ تمام اموات کا 36 فی صد ہیں جن میں 137 فوجی اور 208 پولیس اہل کار شامل ہیں۔
یہ بھی جانیے
مستونگ دھماکے کا مقدمہ درج; نگراں حکومت کا 'را' کے ملوث ہونے کا دعویٰبلوچستان میں داعش نے کیسے جنم لیا؟سرحد پار سے دہشت گردی روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں: نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑرپورٹ کے مطابق فوج کے ماتحت نیم فوجی دستوں کے 33 اہلکار بھی دہشت گردوں کا نشانہ بننے والوں میں شامل ہیں۔
فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیانات کی مدد سے وی او اے کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق فوج نے رواں سال اب تک 214 فوجیوں اور افسران کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
رواں ہفتے جمعے کو ہونے والے دہشت گرد حملے حالیہ مہینوں میں ملک میں ہونے والے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں شامل تھے۔
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پیغمبرِ اسلام کے یوم پیدائش پر ہونے والے جلوس میں خود کش حملہ کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مستونگ حملے میں 60 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے جب کہ دوسرا حملہ خیبر پختونخوا میں ہوا جس میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔
خیال رہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش کی خطے میں شاخ داعش خراسان کے ساتھ ساتھ بلوچ علیحدگی پسند عسکری گروہ عمومی طور پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہے ہیں یا یہ مانا جاتا ہے کہ ایسے دھماکوں میں یہی گروہ ملوث ہیں۔