سندھ میں ایچ آئی وی کے کیسز میں اضافہ رپورٹ ہو رہا ہے۔ جب اتنی بڑی تعداد میں اسکریننگ ہو گی تو وائرس کی تصدیق بھی ہو گی: محکمہ صحت سندھ میر پور خاص میں 27 بچوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق کے بعد 2019 جیسے آؤٹ بریک کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ سن 2019 میں رتوڈیرو کا علاقہ دنیا بھر میں اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب ایک ہزار سے زائد افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی تھی۔ |
"ہر ماہ صوبہ سندھ سے 260 افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہونا اس لیے غیر معمولی بات نہیں کہ رتوڈیرو میں ہونے والے آؤٹ بریک کے بعد سے صوبے بھر میں اسکریننگ کا عمل بڑھا دیا گیا تھا۔"
جب اتنی بڑی تعداد میں اسکریننگ ہو گی تو وائرس کی تصدیق بھی ہو گی۔
یہ کہنا ہے محکمہ صحت سندھ کے ایک اہل کار کا جنھوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر سندھ بھر میں ایچ آئی وی کے سامنے آنے والے نئے کیسز پر بات کی۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع میر پور خاص میں 27 بچوں میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق کی خبر نے ایک بار پھر سے اس بحث کو جنم دیا کہ کیا 2019 کے بعد سے پھر سے کوئی نیا آوٹ بریک سامنے آنے والا ہے؟
سن 2019 میں رتوڈیرو کا علاقہ دنیا بھر میں اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب ایک ہزار سے زائد افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی جن میں 900 بچے بھی شامل تھے۔
وائرس کے پھیلاؤ کا الزام ایک ڈاکٹر پر لگایا گیا تھا جس نے مبینہ طور پر استعمال شدہ سرنج کا استعمال کئی مریضوں پر کیا تھا۔
واقعہ منظر عام پر آتے ہی ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا اور پھر بڑے پیمانے پر متاثرہ علاقے اور اس سے متصل اضلاع میں اسکریننگ کا عمل تیز کر دیا گیا تھا۔
ایچ آئی وی مثبت آنے پر سماجی اور معاشرتی دباؤ
سات سالہ رابعہ اس وقت دو برس کی تھیں جب ان میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی تھی۔
رابعہ کے والدین اور بہن بھائیوں کے ٹیسٹ ہوئے جس میں ان کے اندر وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
رابعہ کے والدین نے اپنی بیٹی میں ایچ آئی وی کی تصدیق کے بعد سے نہ صرف سماجی اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کیا بلکہ انھیں اپنی رہائش بھی تبدیل کرنی پڑی۔
رابعہ کے والدین ہر ماہ رتوڈیرو میں قائم ایچ آئی وی سینٹر سے اپنی بیٹی کے لیے ادویات وصول کرتے ہیں جو ان کی بیٹی نے زندگی بھر کھانی ہیں۔
پاکستان بھر میں ایچ آئی وی کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 70 ہزار ہے جن میں سے 36 ہزار متاثرہ افراد کا تعلق (کی پاپولیشن) جن میں خواجہ سرا، نشہ استعمال کرنے والے افراد، میل، فیمیل سیکس ورکرز شامل ہیں۔
چونتیس ہزار متاثرہ افراد عام لوگ ہیں۔ محکمہ صحت سندھ کے مطابق ان 70 ہزار افراد میں سے 23 ہزار افراد کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔
حال ہی میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں برس سندھ میں 1304 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کے ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ہر ماہ صوبہ سندھ سے تقریباً 260 افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہو رہی ہے جن میں 10 سے 15 فی صد بچے شامل ہیں جن کی عمریں 12 برس سے کم ہیں۔
متاثرہ افراد کا تعلق سندھ کے شہر لاڑکانہ اس سے متصل اضلاع، میر پور خاص، حیدر آباد اور کراچی کے ضلع جنوبی سے ہے۔
ایک جانب محکمہ صحت سندھ کے ذرائع اس تعداد کی تصدیق کرتے ہیں تو دوسری جانب اسی محکمے کے ڈاکٹر ذوالفقار دھاریجو کا کہنا ہے کہ سندھ میں سامنے آنے والے نئے کیسز سے انکار نہیں۔ لیکن اسے ایسے رپورٹ کرنا جیسے کوئی نیا آؤٹ بریک آ رہا ہو اس بات سے اتفاق نہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آف کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) ڈاکٹر ذوالفقار دھاریجو کا کہنا تھا کہ میر پور خاص میں بچوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ایک دن یا ایک ہفتے کا ڈیٹا نہیں یہ تعداد جنوری سے جون 2024 کے دوران کی ہے۔
اُن کے بقول صرف 20 بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں سے دو بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور باقی بچوں کا علاج جاری ہے۔
ڈاکٹر دھاریجو کا مزید کہنا تھا کہ لیٹر میں جاری تعداد میں سے کچھ بچوں کے نام دو بار شامل تھے جس پر محکمہ صحت نیا لیٹر جاری کر رہی ہے۔
ڈاکٹر دھاریجو کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بچوں میں اس وائرس کی تصدیق کے بعد سے ماس اسکریننگ کا عمل شروع کیا جس میں متاثرہ بچوں ان کے اہلِ خانہ، رشتے داروں اور پڑوسیوں تک کے تین ہزار سے زائد اسکریننگ ٹیسٹ کروائے گئے۔
ان ٹیسٹس میں سے ایک بچے کی ماں اس وائرس سے متاثرہ ملی اور پانچ نئے کیسز کی تصدیق ہوئی یہ تمام 12 سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔
'نیشنل ایڈز پروگرام کے جاری کردہ اعداد و شمار سے اتفاق نہیں'
وفاق کے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق رواں سال سندھ میں 1304 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔
وائس آف امریکہ نے جب یہ ڈیٹا محکمہ صحت سندھ کو پیش کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ڈیٹا سے اتفاق نہیں کرتے اور جلد ہی اس پر محکمہ صحت سندھ اپنا مؤقف پیش کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر دھاریجو کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت سندھ نے کبھی بھی نئے کیسز کو نہیں چھپایا بلکہ یہ تمام رجسٹرز کیسز کمپیوٹرائز پروگرام جس میں دوا لینے والے تمام مریضوں کا ریکارڈ مرتب ہوتا ہے اس پر موجود ہے۔ لیکن جس طرح سے کیسز کو پیش کیا جا رہا ہے وہ رپورٹنگ درست نہیں۔
'تعداد میں اضافے کی وجہ اسکریننگ کا بڑھنا بھی ہے'
نام نہ بتانے کے شرط پر محکمہ صحت سندھ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہر ماہ کیسز میں اضافے کی ایک اہم وجہ ملک بھر میں سب سے زیادہ اسکریننگ کا عمل سندھ میں ہونا ہے۔
اُن کے بقول کسی صوبے میں (کی پاپولیشن) کے علاوہ اسکریننگ نہیں کی جا رہی جب کہ سندھ میں محکمہ صحت نے اسکریننگ کے عمل کو بڑھایا ہے۔
'کیسز میں اضافے کی اہم وجہ آگاہی میں کمی اور اتائیوں پر انحصار ہے'
دو ہزار بائیس میں سکھر سے رتوڈیرو لے آنے والی 25 سالہ زیبوں اپنی بیٹی کو ہاتھوں، پیروں میں درد اور بخار کی شکایت کے ساتھ ایچ آئی وی سینٹر آئیں تھی جہاں ان کی پانچ سالہ بیٹی کے ٹیسٹ میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی۔
بعد ازاں زیبوں کا بھی خون کا نمونہ لیا گیا اور ان میں بھی وائرس کی تصدیق ہو گئی۔ زیبوں کے بقول وہ اپنا اور اپنے بچوں کا علاج سکھر میں ایک نجی معالج سے کرواتی تھیں جو اکثر درد کو کم کرنے کے لیے انجیکشن کا استعمال کرتا تھا۔ بیماری کا پتا چلنے کے بعد زیبوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے باقی بچوں کو بھی سینٹر لائیں تاکہ ان کے ٹیسٹ کیے جا سکیں۔
زیبوں کے بقول، غربت ہے، گھر میں کھانا مشکل سے پکتا ہے۔ ایسے میں اسپتالوں میں کیسے مہنگی فیسیں دیں دوائیں خریدیں جہاں خاندان کا بڑا کہتا ہے ہم وہاں بچوں کو علاج کے لیے لے جاتے ہیں۔
اب بھی سندھ کے مخصوص علاقے ہی کیوں اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں؟
محکمہ صحت سندھ کے عہدیدار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2019 کے آوٹ بریک کے بعد سے اسکریننگ کا عمل بڑھا، نئے سینٹرز قائم ہوئے، آگاہی مہم بھی چلائی گئی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے بھر میں موجود اتائیوں کے خلاف اس طرح سے کریک ڈاون نہیں ہو سکا جس طرح ہونا چاہیے تھا۔
اُن کے بقول اگر علاقے کا اسسٹنٹ کمشنر ایسے اتائیوں کے دوا خانے سیل کروا بھی دے تو پولیس کی ملی بھگت سے یہ اتائی رہا بھی ہو جاتے ہیں اور نئے نام اور جگہ سے پھر وہی کام شروع کر دیتے ہیں۔
اسی لیے ابھی تک تمام تر کوششوں کے باوجود کیسز میں کمی ایک چیلنج بن چکا ہے۔ غربت اور آگاہی کی کمی کے سبب والدین اپنے بچوں کو ان اتائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں جس کے بعد ان بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت رتو ڈیرو میں 1100 جب کہ لاڑکانہ میں 500 بچے ایچ آئی وی کا شکار ہیں جنھیں گلوبل فنڈ کے تحت ادویات مہیا کی جاتی ہیں یہ دوا روزانہ 24 گھنٹوں میں ایک بار کھانا لازمی ہے اور اسے زندگی بھر استعمال کرنا ضروری ہے۔