رسائی کے لنکس

مخصوص نشستوں کا کیس: پی ٹی آئی بطور جماعت موجود تھی، آزاد امیدواروں نے شمولیت اختیار کیوں نہیں کی؟ چیف جسٹس


  • سنی اتحاد کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی اور مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔
  • ان کا کہنا تھا کہ آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔
  • جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ مخصوص نشستیں کسی جماعت کو اس کی جیتی ہوئی نشستوں کے حساب سے ملتی ہیں۔
  • جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی جماعت میں شمولیت کا آپشن کسی وجہ سے ہے۔
  • جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی انتخابی نشان نہ ہونے کے بعد بھی بطور جماعت موجود تھی۔ آزاد امیدواروں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کیوں اختیار نہیں کی؟

پیر کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججوں جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کو قدرتی حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا۔ آئینی شقوں کے کچھ بنیادی پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست پر ہوں گی۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہر جماعت کو اپنی جنرل نشستوں کے حساب سے ہی یہ نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔ آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی۔ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔

’مخصوص نشستیں جیتی ہوئی نشستوں کے حساب سے ملتی ہیں‘

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے آزاد امیدوار اس جماعت میں بھی جا سکتے ہیں جس نے الیکشن نہیں لڑا جب کہ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے کہہ دیا ہے کہ مخصوص نشستیں اسی جماعت کو ملیں گی جس نے الیکشن لڑا ہو۔ الیکشن کمیشن آئین میں دی گئی چیزوں کی نفی کر رہا ہے۔

اسی دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کی تشریح کو چھوڑ کر آئینی تشریح بتائیں۔

اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستیں کسی جماعت کو اس کی جیتی ہوئی نشستوں کے حساب سے ملتی ہیں۔ آزاد امیدوار ایسی جماعت میں جائیں جس نے الیکشن نہ لڑا ہو تو کیا وہ اس جماعت کی جیتی ہوئی نشستیں کہلائیں گی؟

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات سے پہلے اپنے ایک آرڈر سے کنفیوز کیا۔ سلمان اکرم راجہ نے وہ آرڈر ریکارڈ پر پیش کر دیا ہے۔ کسی انتخابی نشان چلے جانے کے بعد بھی پی ٹی آئی بطور جماعت موجود تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی انتخابی نشان کے بعد بھی بطور جماعت موجود تھی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آزاد امیدواروں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کیوں اختیار نہ کی؟

’آپ نے اپنے طور پر خود کشی کا فیصلہ کیوں کیا؟‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل سے کہا کہ آپ نے اپنے طور پر خود کشی کا فیصلہ کیوں کیا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی جماعت میں شمولیت کا آپشن کسی وجہ سے ہے۔ آزاد امیدواروں کو سہولت دی گئی ہے الیکشن میں نشستیں جیتنے والی جماعت میں وہ چلے جائیں۔ یہ ایسی جماعت کے لیے نہیں ہے جس نے الیکشن لڑنے کی زحمت نہ کی ہو۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے کہا کہ عدالت الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کی پابند نہیں۔ عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے۔ ممکن ہے الیکشن کمیشن کی تشریح سے عدالت متفق ہو نہ آپ کی تشریح سے۔

اس پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سوال یہی ہے کہ الیکشن میں حصہ نہ لینے والی جماعت کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یا نہیں۔

سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا آزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟

جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ آزاد ارکان اگر تین دن میں سیاسی جماعت رجسٹر کروا سکتے ہیں تو ضرور اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔

’مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں سیاسی جماعت کے لیے انتخابات میں نشست حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈ جماعتیں ہیں۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ امیدواروں نے پی ٹی آئی امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرائے تھے۔ الیکشن کمیشن نے انہیں آزاد سپریم کورٹ کے انتخابی نشان والے فیصلے کی وجہ سے قرار دیا۔ یہ خطرناک تشریح کا معاملہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کون ہوتا ہے پارٹی اور امیدوار کے درمیان آکر کہنے والا آپ کاآپس میں تعلق نہیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ سارے نکات الیکشن کمیشن میں اٹھائے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت یہ نہیں دیکھ رہی کہ الیکشن کمیشن نے زیادتی کی یا نہیں؟ ہم یہ دیکھ رہے ہیں آئین کیا کہتا ہے۔

جسٹس امین الدین کا کہنا تھا کہ سب لوگوں نے پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا تھا۔ کچھ لوگوں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔

پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفادات کے ٹکراؤ

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں۔ آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفادات کے ٹکراؤ میں آتا ہے۔ سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا گیا کہ آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریق کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو کہا کہ یہ بزدلوں والی لائن نہ لیں۔ اس ملک میں ایسے ججز رہے ہیں جنہوں نے اصول پر استعفیٰ بھی دیا۔ ایسے جج بھی گزرے ہیں جنہوں نے پی سی او پر حلف لینے سے انکار کیا۔ کیا آئین کے قدرتی معنی کو نظر انداز کر دیا جائے اور ایسا کیوں کریں؟

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ باہر کی مثالیں دیتے ہیں جہاں کا آئین بہت پرانا ہے۔ ہمارے آئین کو اتنا عرصہ نہیں گزرا اور اس کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئینی تشریح کرتے وقت تلخ حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لوگوں کے ووٹ کے حق کا معاملہ ہے۔

’یہ سیاسی جماعت کا بھی نہیں اس کے ووٹرز کا معاملہ ہے‘

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے۔ 2018 میں بھی یہی ہوا۔ پریس کانفرنس کرنے والوں کو معافی دی جاتی رہی باقی افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ حقائق سب کے علم میں ہیں کیا عدالت آنکھیں بند کر لے۔ کیا آنکھیں بند کر کے ایک سیاسی جماعت کو یہ چیلنجز بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں؟ یہ سیاسی جماعت کا بھی نہیں اس کے ووٹرز کا معاملہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے وہ سیاسی جماعت تو آئی ہی نہیں۔ ہمارے سامنے وہ امیدوار بھی نہیں آئے ورنہ صورتِ حال مختلف ہوتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ صدر عارف علوی نہیں دے رہے تھے۔ لاہورہائی کورٹ میں ایک درخواست سے عام انتخابات رکوانے کی کوشش ہوئی۔ وہاں درخواست گزار پی ٹی آئی تھی نام لیں نا۔ پی ٹی آئی کو ایک سال تک کہا جاتا رہا الیکشن کروا لو۔ اس وقت کون تھا وزیرِ اعظم؟ عمران خان تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ووٹرز کے حق کی بات کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کے ارکان کا وہ حق کہاں گیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت سرٹیفکیٹ اسی لیے رکھا گیا ہے۔ وہاں ان امیدواروں نے خود کو کیا ظاہر کیا تھا وہاں سے شروع کریں۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ امیدوار پی ٹی آئی میں ہی رہتے اور مخصوص نشستیں مانگتے۔ یہ لوگ دوسری جماعت میں چلے گئے اب پی ٹی آئی کا کیس ہمارے سامنے نہیں ہے۔ یہاں پر راتوں رات پیٹریاٹ جیسی جماعتیں بن جاتی ہیں۔

’اگر تمام ارکان کو پی ٹی آئی کا رکن مان لیا گیا تو سنی اتحاد کونسل کا کیا ہوگا؟‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے مکالمے کے دوران کہا کہ کل پی ٹی آئی آکر کہہ دے یہ امیدوار سنی اتحاد کونسل کے نہیں ہمارے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟ یہ دلیل کہاں سے نکل رہی ہے؟ اگر سیاسی بات کرنی ہے تو باہر جا کر کریں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 104 میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ الیکشن سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست دینی ہے۔ یہ صرف الیکشن کمیشن کے شیڈول کا معاملہ ہے۔ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ مخصوص نشستوں کے لیے نامزدگیاں انتخابات سے پہلے ہوں گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ الیکشن لڑنے والا امیدوار تو اسکروٹنی سمیت سخت عمل سے گزرے۔ لیکن مخصوص نشستوں والے نہیں۔

اسی دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع کرائی تھی؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے فہرست جمع کرائی تھی۔ لیکن ان کے امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر تمام ارکان کو پی ٹی آئی کا رکن مان لیا گیا تو سنی اتحاد کونسل کا کیا ہوگا؟

فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کو ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے مسئلہ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہی تو آپ کے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ نے یہ بات کرکے اپنے تمام دلائل پر پانی پھیر دیا ہے۔

پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا انضمام

بعد ازاں سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا گیا۔ وقفے کے بعد دلائل دیتے ہوئے فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے الیکشن کے بعد اپنی فہرست زیر غور لانے کی درخواست الیکشن کمیشن کو دی تھی۔ میں اس بات کا دفاع نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل نے غلطیاں نہیں کیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا انضمام ہوجاتا پھر بھی معاملہ حل ہوتا مگر وہ بھی نہیں ہوا۔ ہمارے خلاف احتجاج اور اعتراض صرف الیکشن کمیشن نے کیا۔

بعد ازاں سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل مکمل کر لیے۔

اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ وہ جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ آنا چاہیے تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے بقول پی ٹی آئی کو آکر کہنا چاہیے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ایسے حالات تھے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟ کیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ ماننے والے آرڈر کے خلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سنی جانی چاہیے؟

’آپ کیس تباہ کر رہے ہیں‘

اس دوران سلمان اکرم راجہ نے بینچ کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کے لیے رجوع کیا۔ ہائی کورٹ نے کہا انتخابات قریب ہیں مداخلت نہیں کر سکتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے دو فروری کا حکم سات فروری کو جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے ہماری اپیل واپس کر دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اپیل کی واپسی تسلیم کر لی تو بات ختم۔ اگر رجسٹرار آفس کے کسی اقدام پر اعتراض تھا تو چیلنج کر دیتے۔ رجسٹرار آفس اور سپریم کورٹ میں فرق ہوتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دیے تھے۔ رجسٹرار آفس نے کہا انتخابی عمل نشان الاٹ کرنے سے آگے بڑھ چکا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ اہم ترین معاملہ تھا۔ لیکن آپ نے اپیل دائر نہیں کی۔ اپیل دائر نہ کرنے سے اہم ترین معاملہ غیر مؤثر ہوگیا۔

اسی دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا۔ سمجھ نہیں آ رہا آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG