افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد جہاں حکومت سازی کے لیے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے وہیں طالبان کی جانب سے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ روابط قائم کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایسے میں چین کے ساتھ مستقبل کی طالبان حکومت کے تعلقات کو اہمیت دی جا رہی ہے جب کہ طالبان بھی یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ چین کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کریں گے. طالبان کی جانب سے چینی صدر کے 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبے میں دلچسپی کی بھی اطلاعات ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی طالبان کے ساتھ شراکت داری چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ساتھ ساتھ اس کے عالمی اثر و رسوخ کو بھی تقویت دے سکتی ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حالیہ ٹی وی انٹرویو اور کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین ہمارا اہم شراکت دار ہے اور افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو طالبان کی طرف سے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک جامع مشترکہ حکومت کے قیام اور امن کی ضمانت کے بغیر چین، طالبان کے ساتھ شراکت داری کو آگے نہیں بڑھائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان کے لیے چیلنج کے ساتھ موقع بھی ہے!
افغانستان اور چین کے معاملات پر قریبی نظر رکھنے والے پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ کی دفاع کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ طالبان نے چین کے بارے میں مثبت بیانات دیے ہیں کہ بیجنگ ان کا سب سے بڑا شراکت دار ہو گا اور وہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شمولیت کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ چین کے بھی کچھ اہم مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں جن میں خاص طور پر افغان سر زمین کا ان کے اور دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی و تشدد کے لیے استعمال نہ ہونے دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدخشاں میں چین مخالف شدت پسند گروپ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (آئی ٹی آئی ایم) کی موجودگی کی اطلاعات تشویش ناک ہیں اور اسی قسم کے خدشات پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو بھی ہیں۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ چین کی دوسری ترجیح افغانستان میں امن کا قیام ہے جو کہ خطے میں استحکام لائے گا اور پاکستان و ایران کی طرح افغانستان کے راہداری منصوبے میں شمولیت سے لینڈ لاکڈ یعنی چاروں طرف خشکی کی سرحدوں والے وسطی ایشیائی ممالک کی گوادر بندرگاہ کے ذریعہ سمندر تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ چین، طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور ان کے ساتھ مالی، اقتصادی، سیاسی تعاون کے لیے تیار ہے۔ کیوں کہ بیجنگ کی نظر میں افغانستان ایک چیلنج کے ساتھ ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو آگے بڑھانے کا ایک موقع بھی ہے۔
چین اور افغانستان کے درمیان 76 کلو میٹر طویل سرحد بھی ملتی ہے جب کہ چین بدخشاں میں منظم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چین کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں انتہا پسندی بڑھی تو اس کے اثرات اس کے صوبے سنکیانگ میں بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں جہاں پہلے ہی چین پر یہ الزام لگتا ہے کہ اس نے ایغور مسلمانوں کو ایک 'کھلی جیل' میں قید رکھا ہے۔
چین میں پاکستان کے سفارت کار کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے مسعود خالد کہتے ہیں کہ چین ایک بڑی طاقت اور معاشی قوت ہے جسے طالبان چین کو ایک شراکت دار کی صورت میں دیکھ رہے ہیں تاکہ افغانستان کے تعمیرِ نو میں ان کی مدد لی جا سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ چین افغانستان کا پڑوسی ہونے کی حیثیت سے چاہتا ہے کہ خطے میں امن ہو اور اس حوالے سے بیجنگ نے سابقہ افغان حکومت سے بھی روابط رکھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جولائی میں ملا برادر کے دورۂ چین کے موقع پر چینی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ وہ طالبان کو ایک قابلِ اعتماد سیاسی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مسعود خالد کہتے ہیں کہ یہ اتفاق پاکستان اور چین کے درمیان پہلے سے پایا جاتا ہے کہ افغانستان کو راہداری منصوبوں میں شامل کیا جائے گا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے لازم ہے کہ ایسی شراکت دار حکومت بنے جو افغانستان میں امن لا سکے کیوں کہ استحکام کے بغیر راہداری منصوبوں کا پایۂ تکمیل تک پہنچنا ممکن نہیں ہو گا۔
خیال رہے کہ چینی وزارتِ خارجہ نے طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے بعد اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں۔ چین ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے طالبان کے کنٹرول کے باوجود کابل میں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھا ہے۔
'فوجی نہیں اقتصادی و سیاسی پہلو اہم ہیں'
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ 31 اگست کو امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے خطے میں ایک خلا محسوس ہوتا ہے اور خطے کے ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے یہ خطہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مشاہدے کے مطابق افغانستان میں فوجی پہلو کی اہمیت امریکی انخلا کے بعد کم ہو گئی ہے اور اب اقتصادیات اور رابطہ کاری ترجیح ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ خطے میں مغرب سے مشرق کی تبدیلی واقع ہو رہی ہے جس میں پاکستان، چین، روس، ایران، قطر اور ترکی کا بنیادی کردار ہو گا۔
مسعود خالد سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی نسبت چین کا افغانستان میں کردار مختلف ہو گا اور ان کے خیال میں چین افغانستان میں اپنی فوجی بیسز بنانے جیسا کوئی قدم نہیں اُٹھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ معاشی تعمیرِ نو اور عالمی حمایت کے لیے طالبان کو جامع حکومت بنانا ہو گی جو ملک میں امن قائم کر سکے اور اس ضمن میں طالبان کے بیانات اور کوششیں حوصلہ افزا ہیں۔
چین کے خدشات پر گفتگو کرتے ہوئے مسعود خالد کہتے ہیں کہ بیجنگ نے بہت واضح انداز میں طالبان سے اپنے تحفطات کا اظہار کر رکھا ہے جس میں چین مخالف مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (آئی ٹی آئی ایم) کی افغان سرزمین کے ذریعے چین مخالف سرگرمیاں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چین اسی صورت میں طالبان کے ساتھ شراکت داری کرے گا جب اس کے تحفظات دور ہوں گے۔
'چین اورعرب ممالک طالبان کی مالی مدد کریں گے'
افغان سینٹرل بینک کے بیرون ملک موجود 10 ارب ڈالرز کے اثاثے منجمد ہونے کے بعد افغانستان کو اس وقت مالی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد مغربی ممالک نے افغانستان کے لیے اپنی مالی امداد روک دی ہے جس سے حکومتی امور چلانا نا ممکن دیکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی برادری کو افغانستان میں انسانی المیے کے خدشے سے خبردار کرتے ہوئے ہنگامی امداد فراہم کرنے پر زور دیا تھا۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ افغانستان کی اقتصادی مشکلات کے حل کے لیے عالمی کنسورشیم (شراکت داری) کی بات ہو رہی ہے جس میں چین، روس کے علاوہ امیر عرب ممالک اپنا حصہ ڈالیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کے حوالے سے امریکہ کا لب و لہجہ مختلف ہے جب کہ برطانیہ جرمنی و فرانس کا مختلف ہے اور ان کے خیال میں یورپی یونین اور بالخصوص برطانیہ طالبان سے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔
مسعود خالد کہتے ہیں کہ چین افغانستان میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ نئی حکومت کی مالی مدد بھی کر سکتا ہے تاکہ انتظامی امور جاری رکھے جا سکیں تاہم یہ تمام اقدامات قابلِ قبول حکومت اور امن کے قیام سے مشروط ہو ں گے۔