روس کے دارالحکومت ماسکو کی ایک اعلیٰ عدالت نے بدھ کے روز ایک سابق صحافی کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ایک نچلی عدالت کی جانب سے دی جانے والی 22 سال قید کی سزا برقرار رکھی۔
آئیون سیفرونوف پر غداری کا الزام لگا کر سنائی جانے والی اس سزا کو زیادہ تر ایک سیاسی مقدمے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
ماسکو میں قائم اپیل کورٹ نے اپنے فیصلے میں آئیون سیفرونوف کو ستمبر میں سنائی گئی سزا کو برقرار رکھا ہے۔
سیفرونوف روسی خلائی کارپوریشن’راسکاسموس‘ کے سربراہ کے مشیر کے طور پر کام کر رہے تھے اور اس سے قبل وہ کاروبار سے متعلق ایک معروف اخبار ’کامرسینٹ‘ کے لیے قومی امور کے رپورٹر تھے۔
ان پر مقدمہ چلانےاور سزا دیے جانے کا عمل ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب یوکرین پر روس کے حملے کے بعد روسی حکمرانوں نے کریملن پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور سرگرم کارکنوں کے خلاف پکڑ دھکڑ کی سخت مہم شروع کی ہے ۔
ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے فوجی راز جمہوریہ چیک کی انٹیلی جنس ایجنسی اور ایک جرمن شہری کو فراہم کیے۔ سیفرونوف نے الزامات کو بے بنیاد اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور اپنی بے گناہی پر إصرار کیا تھا۔
سیفرونوف کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور صحافی کی حیثیت سےسرکاری اداروں اور فوجی صنعتوں کے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات شائع کی تھیں۔
SEE ALSO: امریکی باسکٹ بال کھلاڑی برٹنی گرائنر روس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں رہاسیفرونوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی کبھی بھی کسی خفیہ دستاویز تک رسائی نہیں تھی۔اور یہ کہ تفتیش کار جاسوسی کےالزامات میں ان کے خلاف کوئی بھی گواہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ان کے ساتھیوں نے اس فیصلے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہےاور سیفرونوف کی رہائی پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی حکام ایسی رپورٹنگ پرسیفرونوف سے انتقام لینا چاہتے ہیں جس میں فوجی واقعات اور ہتھیاروں کے مشکوک سودوں کو بے نقاب کیاگیا ہے۔
یورپی یونین نے آزاد صحافت کے خلاف حکومت کے منظم جبر کی مذمت کرتے ہوئے روسی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ سیفرونوف کے خلاف تمام الزامات ختم کر دیں اور انہیں غیر مشروط طور پر رہا کریں۔
روس میں حالیہ برسوں میں اپنے خلاف غداری کے الزامات کا سامنا کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں ، سائنس دانوں اور کاروبار سے منسلک عہدہ داروں کو رازداری اورمعلومات تک رسائی میں کمی کے باعث اپنے خلاف مقدمات کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا ہے۔