سہیل احمد میمن گریڈ ٹو میں ایڈمن افسر کے طور پر آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) میں کام کر رہے تھے اور ان کی آخری پوسٹنگ پاکستان کی بڑی گیس فیلڈ کنر پشاکی میں تھی۔ البتہ گزشتہ ماہ 17 اگست کو سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ان پر بجلی بن کر گرا۔ اور انہیں ملازمت سے اسی روز نکال دیا گیا۔
اب او جی ڈی سی ایل سہیل احمد کو اپنا ملازم تسلیم کرنے پر تیار نہیں جب کہ وہ فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کرنے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔
سہیل احمد کا کہنا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے کے نتیجے میں صرف وہ ہی نہیں بلکہ ان کے ادارے سے 250 کے لگ بھگ افراد کو نوکری سے برخاست کیا گیا ہے۔ جب کہ پاکستان کے درجن بھر سرکاری اداروں میں ایسے ملازمین کی تعداد 17 ہزار کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے جو اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔
’سیاسی بھرتیاں قرار دیتے ہوئے نوکریوں سے برخاست کیا گیا‘
سہیل احمد کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی 96-1995 کے دوران کارپوریشن کا حصہ بنے تھے جب ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت تھی۔ اس دوران اور بھی کئی اداروں، جن میں سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی)، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) ، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے)، اسٹیٹ لائف اور دیگر وفاقی محکمے شامل تھے، میں ایسی ہی بھرتیاں ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت جانے اور مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان ملازمین کو، جو پی پی پی کے دور میں مختلف اداروں میں بھرتی ہوئے تھے، سیاسی بھرتیاں قرار دیتے ہوئے نوکریوں سے برخاست کر دیا تھا۔
سہیل احمد کے بقول ان سمیت تمام ملازمین کو مروجہ طریقۂ کار کے مطابق نوکریاں دی گئی تھیں۔ ان ملازمین نے سروسز ٹریبونل اور عدالتوں کا رُخ کیا البتہ بیشتر نوکریوں پر بحال نہ ہو سکے۔ ایس ایس جی سی میں کچھ ملازمین کو عدالتی احکامات پر نوکریوں پر دوبارہ رکھ لیا گیا تھا۔
برطرف ملازمین کی بحالی اور واجبات کی ادائیگی
پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 میں دوبارہ حکومت قائم ہونے پر ایک بار ان تمام ملازمین کو بحال کرنے کے لیے 2009 میں صدارتی آرڈیننس لایا گیا اور ایسے ملازمین کو تین سال کی تنخواہیں بھی ادا کی گئیں۔
دسمبر 2010 میں اس آرڈیننس کو پارلیمان سے منظور کرا کر باقاعدہ قانون کی شکل بھی دی گئی جسے ’سیکڈ ایمپلائز ری انسٹیٹمنٹ ایکٹ‘ (سیرا) کا نام دیا گیا۔
ایسے ملازمین کو اشتہار دے کر نوکریوں پر واپس آنے کا کہا گیا اور مستقل ملازمین کو ان کے برخاست کرنے کے وقت کے گریڈ سے ایک گریڈ اوپر کی ترقی بھی دی گئی۔ جب کہ غیر مستقل ملازمین کو اسی گریڈ پر دوبارہ سے نوکریوں پر بحال کر دیا گیا۔
اس قانون کے تحت تقریباََ 17 ہزار افراد نوکریوں پر بحال ہوئے۔ قانون پر عمل درآمد اور اس میں قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے نظر ثانی بورڈ تشکیل دیا گیا جو وفاقی وزیر خورشید شاہ کی نگرانی میں کام کر رہا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب انٹیلی جنس بیورو کے بعض ملازمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ بحال کیے گئے ایک ہزار ملازمین کی وجہ سے پہلے سے کام کرنے والے ملازمین کی سنیارٹی متاثر ہو رہی ہے۔ جب کہ کچھ مزید اداروں کی جانب سے قانون پر پوری طرح عمل درآمد نہ کرنے پر بحال ملازمین نے بھی عدالت کا رخ کیا۔
ہائی کورٹ کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا جس نے لمبی سماعتوں کے بعد سال 2019 میں اس پر فیصلہ محفوظ کیا گیا جو 20 ماہ بعد رواں سال اگست میں سنایا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کیا ہے؟
عدالت نے اس قانون کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ برطرف ملازمین کو پچھلی تاریخوں میں سنیارٹی دی گئی۔ جو کہ آئین کے آرٹیکل چار کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون منظور کرکے مقننہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور ایسے لوگوں کو ناجائز فائدہ دیا گیا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بر طرف ملازمین کو سروسز ٹربیونل ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل 12 کے تحت اپنی برطرفی چیلنج کرنے کا بھرپور حق تھا جو انہوں نے مقررہ وقت پر استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے اب یہ معاملہ ماضی کا قصہ بن چکا تھا۔ اس طرح اس قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کو تمام فوائد فوری طور پر بند کیے جاتے ہیں۔ جب کہ اس ضمن میں دیے گئے تین سال کے بقایاجات بھی نکالے گئے ملازمین کو واپس دینے ہوں گے۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں ملازمین کو برخاست کرنے کے خطوط دیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ملازمین 50 سال سے اوپر کی عمر کے ہیں۔
ان ملازمین نے ایک جانب عدالتی فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے درخواستیں دائر کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ تو دوسری جانب وہ کئی شہروں میں احتجاج بھی کر رہے ہیں۔
اسٹیٹ لائف میں 57 سال کی عمر میں کام کرنے والے غلام محمد کا کہنا ہے کہ اس عمر میں انہیں اب نوکری پر کون رکھے گا؟ جب کہ انہیں تین سال کی یک مشت لی گئی تنخواہیں بھی واپس کرنی ہیں۔ پھر مہنگائی کے اس دور میں ان کے گھر کا چولہا اب کیسے چلے گا؟
’ہزاروں خاندان بے روزگار ہو گئے‘
پیپلز پارٹی نے، جس کے دور میں یہ قانون پاس ہوا تھا، اس فیصلے پر کہا ہے کہ اس سے 16 ہزار خاندانوں کو بے روزگار کر دیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پی پی پی کا ایک معاشی فلسفہ ہے جس کے تحت ہم سجھتے ہیں کہ سرمایہ جب تک تقسیم نہیں ہو گا اس وقت تک معاشی ترقی نہ ممکن ہے۔ اسی لیے پیپلز پارٹی کی حکومت تنخواہوں کو بڑھانے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی بات کرتی ہے اور لوگوں کی قوت خرید بڑھانے کے لیے یہ ضروری بھی ہے۔
تاج حیدر نے مزید کہا کہ ان تمام افراد کو مروجہ طریقۂ کار پر پورا اترنے کے بعد ہی ملازمتیں دی گئی تھیں جن کا کسی ایک جماعت سے تعلق نہیں تھا۔ اس لیے اسے سیاسی بھرتیاں کہنا غلط ہے۔
وہ یہ ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں کہ ماضی میں ریاستی اداروں میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو ملازمتیں دی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ درحقیقت یہ ان اداروں میں انتظامیہ کے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں۔ ان کے خیال میں اصل مسئلہ تب ہوتا ہے جب وہاں غلط انتظامی فیصلوں کی وجہ سے بحران آتا ہے۔
’سرکاری اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ایک حقیقت ہے‘
اس حوالے سے معاشی امور کے ماہر سابق وفاقی وزیرِ خزانہ اور لاہور کی بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں معلم حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ملک کے سرکاری اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی ملازمین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو سرکار کو ان سرکاری اداروں کی سبسڈی بڑھانی پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے اور پاکستان ریلویز کو ہر برس قرضہ دلانا پڑتا ہے یا پھر سبسڈی دینی پڑتی ہے اور قرضے کے حصول میں گارنٹی بھی حکومتِ پاکستان ہی کو اٹھانا پڑتی ہے۔ جب یہ ادارے یہ قرضہ واپس کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو اسے بھرنا ظاہر ہے کہ حکومت ہی کو ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گارنٹیڈ قرضے کو کور کرنے کے لیے حکومت کو گزشتہ سال 330 ارب روپے جاری کرنا پڑے جب کہ اس وقت ایسے قرضوں کی بقایاجات کی مد میں حکومت کو 2400 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ یعنی یہ بھی پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کے برابر کا قرضہ ہے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ قرضوں کے علاوہ اپنے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے حکومت ان اداروں کو 150 ارب روپے سبسڈی کی مد میں الگ سے جاری کرتی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں نوکریاں سیاسی بنیادوں پر دی جاتی ہیں یا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے دی اور لی جاتی ہیں۔ یہاں قائم ہونے والی حکومتیں اسے سیاسی منافع کے لیے استعمال کرتی آئی ہے۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آغاز میں جاری ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت کے 85 کاروباری اداروں میں اس وقت چار لاکھ 16 ہزار ملازمین ہیں اور ان اداروں کا سال 19-2018 کے دوران مجموعی خسارہ 129 ارب روپے رہا۔ ان میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان اسٹیل ملز، زرعی ترقیاتی بینک، پاکستان پوسٹ آفس، پاکستان ریلوے، بجلی پیدا اور ترسیل کرنے والی سرکاری کمپنیاں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے اداروں میں شمار ہوئے۔
حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد تو شروع کر دیا ہے جس کے تحت ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے البتہ اب تک اس معاملے پر حکومت کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے کا سوچ رہی ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ کے باہر بیٹھے ملازمین کے احتجاج پر حکومت نے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ان کے مطالبات سنے گی۔