شاہد قادری کراچی میں گزشتہ 22 برس سے 'فائر فائٹنگ' سے وابستہ ہیں اور دو دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط اپنے کیریئر کے دوران وہ شہر میں لگنے والی آگ کے واقعات پر قابو پانے، لوگوں کی جانیں اور املاک بچانے میں پیش پیش رہے ہیں۔
کچھ عرصے قبل تک شاہد قادری اپنے پیشے سے بے حد مطمئن اور لگاؤ رکھتے تھے لیکن گزشتہ چند سالوں سے ان کی مالی مشکلات نے اُنہیں پریشان کر رکھا ہے۔
قادری کے مطابق "گزشتہ پانچ چھ سالوں سے تنخواہیں وقت پر آ رہی ہیں اور نہ ہی فائر رسک الاؤنس بر وقت مل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے گھریلو مشکلات بڑھ گئی ہیں۔"
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شاہد قادری نے کہا کہ جس فائر فائٹر کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں اور وہ کرایہ دار سے منہ چھپاتے پھر رہا ہو تو کیا وہ دل سے کام کرسکتا ہے؟ جس فائر فائٹر کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ کس طرح آگ کو بجھا سکتا ہے؟
اُن کے بقول، "موجودہ صورتِ حال میں نہ تو کام میں دل لگ رہا ہے اور نہ ہی مسائل حل ہو پا رہے ہیں۔"
ناہید خاتون کے شوہر امتیاز احمد خان کا انتقال ایک سال قبل ہوا تھا۔ امتیاز احمد نے اپنی زندگی کے 10 سال بلدیہ عظمیٰ کراچی کے فائر بریگیڈ محکمے میں نوکری کرتے ہوئے صرف کیے تھے۔
ناہید خاتون کے مطابق اُنہیں آج تک واجبات ملے اور نہ ہی سرکاری قوانین کے تحت تنخواہ ملی۔ اس کے علاوہ ان کے بیٹے کو کوٹے کے تحت ملازمت بھی نہیں ملی۔
ناہید کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حکام کا کہنا ہے کہ اُن کے چیک تو تیار ہیں مگر محکمے کے اکاؤنٹ میں پیسے ہی نہیں آئے جسے وہ کیش کرا کر اپنا گھر چلا سکیں اور بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرسکیں۔
تنخواہوں میں غیر معمولی تاخیر کا سامنا بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 14 ہزار کے لگ بھگ ملازمین کر رہے ہیں جب کہ 20 ہزار کے قریب پینشنرز کو بھی کم و بیش اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت چلنے والا کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ہو یا پھر عباسی شہید اسپتال، دونوں بڑے اداروں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور عملہ کئی مہینوں سے تنخواہیں نہ ملنے پر پریشان ہے۔
تنخواہوں میں تاخیر کی وجہ کیا ہے؟
تنخواہوں میں غیر معمولی تاخیر پر محکمے کے اہلکار بتاتے ہیں کہ اس سلسلے کی کڑی اس وقت سے جا ملتی ہے جب وفاقی حکومت نے 1999 میں ملک بھر سے ‘آکٹرائے ضلع ٹیکس’ یا ‘چنگی ٹیکس’ ختم کیا تھا۔
یہ ٹیکس بلدیہ عظمیٰ کراچی کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھا جس سے سالانہ تین سے چار ارب روپے تک جمع ہوتے تھے۔
تاہم اس کے بدلے ملک میں سیلز ٹیکس کی شرح 12.5 فی صد سے بڑھا کر 15 فی صد کر دی گئی تھی۔ یہ ڈھائی فی صد اضافی ٹیکس 'آکٹرائے ٹیکس' کے خاتمے کے بعد صوبوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو اس مد میں پیسے ملنے کا سلسلہ کم ہوتا چلا گیا۔
دوسری جانب صوبائی حکومت بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی کو اس مد میں پیسے دینے سے کتراتی رہی ہے۔
سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے رقوم کم منتقل کیے جانے کے باعث ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کرنا پڑتی ہے اور اس کا سامنا بلدیاتی اداروں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی مالی امداد کے لیے کوشاں ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کو اس کے ‘او زیڈ ٹی’ کی مد میں آنے والے پیسے سے بھی زیادہ ادا کرتی ہے جبکہ ادارے کے بجلی کے بلز، ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر مد میں بھی اخراجات صوبائی حکومت ادا کرتی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو مدد کرنی چاہیے۔
میئر کراچی وسیم اختر کیا کہتے ہیں؟
مئیر کراچی وسیم اختر تنخواہوں کی ادائیگی اور محکمے کو ملنے والے بجٹ کے بارے میں الگ مؤقف رکھتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے تنخواہوں کی مد میں شارٹ فال ہی کو دیکھ لیا جائے تو وہ بھی آٹھ کروڑ روپے ماہانہ یا تقریباً ایک ارب روپے سالانہ ہے جب کہ پینشنز، مختلف الاؤنسز اور صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ تنخواہوں کی مد میں 15 فی صد اضافہ اس کے علاوہ ہے۔
وسیم اختر کے بقول، وہ اس قابل نہیں کہ اپنے ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کو بر وقت تنخواہیں ادا کرسکیں۔
میئر کراچی شکوہ کرتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے 'سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013' کے تحت اُن سے کئی ایسے محکمے واپس لے لیے ہیں جو ادارے کو ٹیکس ادا کرتے تھے۔ جبکہ اس کے علاوہ کئی مارکیٹس کے خاتمے اور اشتہاری بل بورڈز پر پابندی نے بلدیہ کی آمدنی کو بھی متاثر کیا ہے۔
میئر کراچی کا مزید کہنا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس صرف کار پارکنگ کی مد میں آنے والا ٹیکس ہی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ جبکہ فائر ٹیکس کی مد میں آمدن نہ ہونے کے برابر ہے۔
اُن کے بقول، وجوہات کی بناء پر ادارے کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ انتظامی اور مالی بحران کے باعث شہر میں اکثر ترقیاتی کام ٹھپ ہیں اور ملازمین کا مورال بُری طرح گرا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ اس معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے بھی صوبائی حکومت کو گزشتہ برس احکامات دیے تھے کہ حکومت بلدیہ عظمیٰ کے مالی مسائل کے حل کے لیے گرانٹ میں اضافہ کر کے محکمے کی ضروریات کو پورا کرے۔ لیکن صوبائی حکومت اپنی مالی مشکلات کے باعث ایسا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے اور یہ معاملہ اب تک حل طلب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی ملازمین اس صورت حال میں احتجاج اور ہڑتالیں کرنے پر مجبور ہیں جبکہ میئر کراچی اس سارے معاملے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔