پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس کی مبینہ آڈیو لیک میں کی گئی گفتگو پر وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ کیا ہمارے انصاف کے ایوانوں میں بیٹھنے والے بچوں، ماں، باپ، ساس اور سسر کے کہنے پر فیصلے کر رہے ہیں؟
فیصل آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ابھی ایک آڈیو سامنے آئی ہے جس میں ایک جج کو فیصلوں پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اپنے بزرگی کے رشتے کا ذکر ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ اس آڈیو پر سوموٹو نوٹس لے۔ اگر یہ آڈیو جعلی ہے تو بنانے والوں کو سزا دی جائے۔ اگر اس آڈیو میں کی گئی گفتگو درست ہے تو گفتگو کرنے والوں سے پوچھا جائے اور جن کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے وہ اپنے عہدوں سے مستعفی ہوں۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق لیک ہونے والی مبینہ آڈیو میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سال ماہ جبین نون ایک وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ رافعہ طارق سے گفتگو کر رہی ہیں۔ اس مبینہ گفتگو میں تحریکِ انصاف کے لاہور میں ہونے والے جلسے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رافعہ طارق کہتی ہیں کہ انہوں نے جسٹس عمر عطا بندیال کو پیغام ارسال کیا ہے کہ لاہور کے جلسے میں لوگ ان کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ وہاں لاکھوں لوگ موجود تھے اور اسی طرح ہر شہر میں لوگ ان کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس کی ساس ماہ جبین کہتی ہیں کہ خدا ان کو ہمت دے۔
جس کے جواب میں رافعہ طارق نے کہا کہ انہوں نے جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر کو ’بہت اچھا‘ کا پیغام بھیجا ہے، جس پر، ان کے بقول ،ان دونوں نے انہیں ایموجی کے ذریعے جواب دیا اور محتاط رہنے کے لیے کہا۔
اس دوران چیف جسٹس کی ساس نے کہا کہ بس اب جلد از جلد الیکشن ہوں۔
اس گفتگو کے حوالے سے ابھی تک کسی نے تصدیق نہیں کی البتہ تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں کا یہ کردار کس ملک میں ہوتا ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آڈیو لیک کے معاملے پر کئی مہینوں بعد بھی درخواست کی سماعت نہیں کی ۔ اب گھریلو خواتین بھی اس کا شکار ہو رہی ہیں۔
فواد چوہدی کے اس بیان پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ گھریلو خواتین اگر سیاست کریں گی اور فیصلوں پر اثر انداز ہوں گی، عدالت کے اہم ترین کیس پر گفتگو اور تبصرے کریں گی تو وہ کیسے گھریلو خواتین ہو گئیں؟
انہوں نے کہا کہ ایک موجودہ جج کے بیٹے اور خاندان کے افراد تحریکِ انصاف میں ہیں۔ البتہ وفاقی وزیرِ داخلہ نے اس جج کا نام نہیں لیا۔
رانا ثنا اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا اس آڈیو کا فرانزک آڈٹ ہوگا؟ اگر یہ جعلی ہے تو اس کو بنانے والے کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ اس آڈیو کے انتہائی مضر اثرات ہیں۔ اس ملک میں انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ انصاف کے برعکس ہے۔
خیال رہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب پاکستان میں اداروں میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جانب حکومت نے پارلیمان سے قانون سازی کرکے سپریم کورٹ کے جسٹس کے اختیارات کم کر دیے ہیں اور پارلیمان میں قرار دادیں منظور کی ہیں ملک میں الیکشن ایک وقت میں ہونے چاہیں۔ تو دوسری جانب سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کا حکم دیا ہے اور اس پر عدالتی کارروائی جاری ہے جب کہ چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی قانون سازی پر عمل در آمد روک دیا ہے۔
SEE ALSO: آڈیو اور ویڈیو لیکس معاملہ؛ عمران خان کا سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہواضح رہے کہ اس آڈیو سے قبل بھی وزیرِ اعظم ہاؤس سمیت کئی سیاست دانوں اور اہم شخصیات کی آڈیوز سامنے آ چکی ہیں لیکن آج تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کون ان آڈیوز کو ریکارڈ اور جاری کر رہا ہے جب کہ اس حوالے سے قانون پر عمل درآمد نہ ہونے پر کون اس کا احتساب کرے گا۔