سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ لبنانی وزیر کے یمن کی جنگ پر بیان کے بعد لبنان سے سفیر کو واپس بلا رہا ہے۔ جب کہ ریاض میں تعینات لبنان کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
لبنان کے وزیرِ اعظم نجیب مکاتی کی طرف سے فوری ردِ عمل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہیں سعودی عرب کے اس اقدام پر افسوس ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق سعودی عرب نے ملک کی اور عوام کی سیکیورٹی کے پیشِ نظر لبنان کی تمام درآمدات کو روکنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
سعودی عرب کے وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے لبنان میں تعینات سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلایا ہے جب کہ لبنانی سفیر کو ملک چھوڑنے کے لیے ان کے وزیر اطلاعات کی طرف سے رواں ہفتے توہین آمیز بیان دینے کے سبب کہا گیا ہے۔
لبنان کے ساتھ تعلقات سے متعلق ریاض کا مزید کہنا ہے کہ بیروت کے خلاف مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ سعودی عرب لبنان کے خلاف مزید کیا اقدامات کرے گا اس حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
لبنان کے وزیرِ اعظم نجیب مکاتی کا ریاض کے اقدام پر کہنا ہے کہ انہیں سعودی عرب کے اس اقدام پر شدید افسوس ہے اور انہیں امید ہے کہ سعودی عرب اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرے گا۔
سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے رواں ہفتے بدھ کو لبنان کے سفیر کو وزیر اطلاعات جارج قرداحی کے یمن میں باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ پر تنقید کرنے پر طلب کیا تھا۔
جارج قرداحی کا ایک ٹی وی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایران کی پشت پناہی میں لڑنے والے حوثی باغی بیرونی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کی قیادت میں لڑنے والی فوج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لبنان کے وزیرِ اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ گھروں، دیہات، جنازوں اور شادیوں پر اتحادی افواج کی طرف سے بمباری کی گئی۔
پیر کو نشر ہونے والے انٹرویو میں جارج قرداحی نے یمن میں سات برس سے جاری جنگ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔
سعودی عرب اپنے سابق اتحادی لبنان سے حالیہ برس میں دور ہوا ہے۔ لبنان پر شیعہ مسلح تحریک حزب اللہ کا اثر و رسوخ ہے۔ اور حزب اللہ کو خطے میں سعودی عرب کے حریف ایران کی حمایت حاصل ہے۔
رواں ہفتے منگل کو لبنان کی حکومت نے وزیرِ اطلاعات جارج قرداحی کے بیان کو رد کیا کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بیان حکومت کی ترجمانی نہیں کرتا۔
حکومت کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ انٹرویو جارج قرداحی کو کابینہ میں شامل کیے جانے سے قبل کیا گیا تھا۔
جارج قرداحی ایک معروف ٹی وی میزبان ہیں۔ انہوں نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ انٹرویو پانچ اگست کو ریکارڈ کیا گیا تھا اور یہ ان کا ذاتی مؤقف تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا اور نہ ہی انہوں نے کسی پر حملہ کیا تو پھر وہ کیوں معذرت کریں؟
یمن میں خانہ جنگی کا آغاز 2014 میں اس وقت ہوا تھا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھالا تھا اور اس کے اگلے برس 2015 میں سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادی افواج نے یمن میں کارروائی شروع کی تھی۔
اس خانہ جنگی میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جب کہ لاکھوں شہری بے گھر ہوئے ہیں جسے اقوام متحدہ نے دنیا کا بد ترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔
رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب نے اعلان کیا تھا کہ وہ لبنان سے پھلوں اور سبزیوں کی درآمد بند کر رہا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ اس آڑ میں منشیات اسمگل کی جا رہی ہیں جس پر بیروت کوئی کارروائی نہیں کر رہا۔
دوسری طرف مئی میں لبنان کے وزیرِ خارجہ چاربل وہبے سعودی عرب سے متعلق کمنٹس دینے پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے تھے۔
اس خبر میں مواد خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لیا گیا ہے۔