آٹھ اکتوبر کو کون سا جادو ہو گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا: چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف دائر درخواست پرسماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ پی ٹی آئی کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق آج کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے اراکین خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ، ایاز صادق اور دیگر بھی عدالت میں موجود ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میرے گزشتہ روز کے ریمارکس سے ابہام پیدا ہوا ہے۔ میں اپنے فیصلے اور شارٹ آرڈر پر آج بھی اسٹینڈ کرتا ہوں۔میڈیا میں غلط تشریح کی گئی، میں نے سپریم کورٹ کے رولز کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔

انہوں نے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر کہا کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں۔ ہمارے حساب سے فیصلہ چار ججز کا ہے۔انہوں نے کہا کہ آرڈر آف دی کورٹ 3-4 کا ہے اور یہی حتمی فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال نے کہا کہ وہ اپنے اختلافی فیصلے کے ایک ایک لفظ پر قائم ہیں۔ جو تجاویز فیصلے میں دیں چیف جسٹس سے درخواست ہے ان پر غور کریں۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس نے آج تک کورٹ آف آرڈر جاری نہیں کیا۔ جب کورٹ آف آرڈر نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی۔ الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟

SEE ALSO: ’چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کی وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، یہ نظرِ ثانی کا درست وقت ہے‘

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہمارا فیصلہ آرڈر آف دی کورٹ ہے۔ چار ججز نے درخواستیں مسترد کی تھیں۔ جب حکم ہی نہیں تھا تو کیس کیسے چل سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عمل درآمد کیا۔ اس پر وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا۔عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدر نے 30 اپریل کی تاریخ دی۔

انہوں نے بتایا کہ تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردیں۔ آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے۔ انتخابات کےلیے سازگار ماحول کا بھی آئین میں ذکر ہے۔ آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں۔

اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے۔

سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم میں لکھا ہے کہ فیصلہ 2-3 سے ہے۔ فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں۔ کمیشن نے فیصلے کے پیراگراف 14 اور ابتدا کی سطر کو پڑھ کر عمل کیا۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا۔ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ممکن ہے ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔

سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3-4 کا ہے؟ یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 3-4 کا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اختلاف رائے جج کا حق ہے۔ اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ کھلی عدالت میں پانچ ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کیے۔

اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں لکھا کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں۔ اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں۔ کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہیں رہنے دیں۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا مؤقف ہے؟ جس پر سجیل سواتی نے کہا کہ 3-4 کے فیصے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے کوششیں کیں۔ الیکشن کمیشن نے سیکشن 57 کے تحت الیکشن کی تاریخیں تجویز کیں۔ تین مارچ کو عدالتی فیصلہ موصول ہوا۔ الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ سے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا۔ صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر شیڈول جاری کیا۔

اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یہ آرڈر کب جاری کیا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ 22 مارچ کی شام کو یہ جاری کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب حکم جاری کیا تو کاغذات نامزدگیاں موصول ہوچکی تھیں۔ آرڈر جاری ہونے تک شیڈول کے چند مراحل مکمل ہوچکے تھے۔

'عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلتے رہنے دینا ہے'

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت بھی سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی۔ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے پر ہدایت لے کر آگاہ کرنے کا کہا تھا۔ سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پر امن نہیں ہو سکتے۔ کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یقین دہانی کس کی طرف سے ہے؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی پارٹی کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے۔جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلعے میں انتخابات مؤخر بھی ہو سکتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کی وجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ دے کر واپس لی گئی۔آٹھ اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی۔ آٹھ اکتوبر کو کون سا جادو ہو جائے گا۔ جو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ سے انصاف چاہتے ہیں: رانا ثناء اللہ

اس سے قبل سپریم کورٹ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ سے انصاف چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم ملک کی سیاست میں رواداری، قانون اور آئین کی حکمرانی میں عدالتِ عظمیٰ اپنا کردار ادا کرے۔ عدالت کے کردار سے ہی توازن آئے گا۔"

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ایسے فیصلے ہوئے ہیں جس سے معاشرے میں عدم توازن ہوا۔

SEE ALSO: الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی اتھارٹی نہیں تھی: چیف جسٹس

اپنی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس کیس کا جو فیصلہ ہوا ہے اسے ایک طرف تین دو کا فیصلہ کہا جا رہا ہے جب کہ ایک طرف چار تین کا فیصلہ کہا جارہا ہے اور یہ ججز ہی کہہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اندرونی معاملہ ہے یہ نہیں ہوسکتا، اس سے پوری قوم منسلک ہے اس پر ابہام دور ہونا چاہیے۔ یہ ابہام لارجر بینچ یا فل کورٹ ہی دور کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نےانتخابات ازخود نوٹس کیس کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر رواں ماہ ہی پنجاب میں انتخابات کے لیے 30 اپریل کا شیڈول جاری کیا تھا۔

تاہم گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے ان انتخابات کو آٹھ اکتوبر تک ملتوی کردیا تھا۔کمیشن نے انتخابی عمل اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کی عدم دستیاب کو جواز بنایا تھا۔

اس کے علاوہ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے صوبے میں 28 مئی کو انتخابات کی تاریخ دی تھی۔ البتہ گزشتہ ہفتے انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو ایک خط ارسال کیا کہ صوبے میں آٹھ اکتوبر کو الیکشن کرائے جائیں۔گورنر نے صوبے میں الیکشن مؤخر کرنے کی وجہ امنِ عامہ کی صورتِ حال کو قرار دیا ہے۔

اس معاملے پر پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب کے الیکشن کو آٹھ اکتوبر کو منعقد کرنے کا نوٹی فیکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 30 اپریل کو ہی پنجاب میں الیکشن کرائے جائیں۔

چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز

علاوہ ازیں منگل کو وفاقی کابینہ نے منگل کو عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کا مسودہ منظور کیا ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی یہ کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

انتخابات التوا کیس: ججوں کے اختلافی نوٹ سے قانون کی بالادستی قائم ہوگی، ماہر قانون

اس کے ساتھ ساتھ یہ قانون بھی بنایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔

دوسری جانب قومی اسمبلی میں منگل کو ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ ہے کہ یہ ایوان سیاسی معاملات میں عدلیہ کی 'بے جا مداخلت' کو سیاسی عدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے۔

قرار داد کے مطابق ایوان قرار دیتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد خودمختار آئینی ادارہ ہے جو آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے۔