چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کو آگے بڑھانے کا کوئی قانون یا اتھارٹی نہیں تھی۔ کمیشن نے یہ فیصلہ جلد بازی میں کیا۔
منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ پی ٹی آئی نے پنجاب میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کےمطابق چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان کا خیرمقدم کیا اور ریمارکس دیے کہ توقع ہے آپ سے بہترین معاونت ملے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی کو طول نہیں دینا چاہتے۔ سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا۔ جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا ہے تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔
اٹارنی جنرل کے مطابق عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کرلیا جائے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ تیکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تمام قومی اداروں کا احترام لازم ہے۔
اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے۔ پہل تحریک انصاف کو کرنا ہوگی کیوں کہ عدالت میں وہ آئی ہے۔
چیف جسس نے کہا کہ ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے۔ معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔
اس پر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے عدالت میں دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب کے الیکشن کو آٹھ اکتوبر کو منعقد کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 30 اپریل کو ہی پنجاب میں الیکشن کرائے جائیں۔
اس کیس کی پیر کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے وفاقی حکومت، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز کو نوٹس جاری کیے تھے جب کہ الیکشن کمیشن سے بھی جواب طلب کیا تھا۔
سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔
اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 90 دن اب گزرنے والے ہیں۔ ہمارے ملک میں آئین کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریخ کون بڑھائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے؟
اس دوران وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آ جائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل ہو چکا ہے۔ صدر کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ صدر کی تاریخ کو تبدیل کردے؟ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کرسکتا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے۔ کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ تو تبدیل کرسکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 2008 میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔
اس دوران علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا کہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن آٹھ اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخ تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا۔ تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔ وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔
اس پر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ نوے دن کے بعد کی دی۔آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے۔الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو دو سال بھی کر سکے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے۔
'دوسری جنگِ عظم میں بھی انتخابات ہوئے تھے'
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسری جنگ عظیم میں بھی انتخابات ہوئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1988 میں انتخابات اگست میں ہونا تھا، لیکن جنرل ضیا کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 1988 میں الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کس نے کیا تھا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔ 1988 میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم سجھیں گے کہ قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے؟ جب الیکشن ہوں تو فوج کا کام سیکیورٹی فراہم کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل صورت حال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے کے لیے الیکشن ملتوی کیسے کیے جا سکتے ہیں۔بینظیر بھٹو کی شہادت پر بھی الیکشن صرف 40 دن آگے ہوئے تھے۔ احتجاج کے باعث الیکشن کمیشن کے دفاتر نذرِ آتش کر دیے گئے تھے۔ ملک بھر میں احتجاج ہورہے تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لیے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے۔ سیاسی میچورٹی پر بھی ہدایات لے کر آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں ٹرین پر سفر کیا ہر جگہ سیلاب تھا۔ بلوچستان میں کئی جگہ ٹرین پیدل چلنے والوں کی رفتار سے چلتی ہے ۔ کوئٹہ ابھی تک ریلوے لائن سے منسلک نہیں ہوسکا۔ جہاں نکل و حرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلدی بازی میں لکھا گیا۔ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اتھارٹی یا قانون نہیں تھا کے الیکشن تاریخ کی توسیع کرے۔
سپریم کورٹ میں ایبسلوٹلی ناٹ کا چرچا
سماعت کے دوران ایک موقع پر 'ایبسلوٹلی ناٹ' کا بھی چرچا رہا۔
دورانِ سماعت علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟
اس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ 'ایبسلوٹلی ناٹ'، چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ 'ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا۔ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
خیال رہے کہ عمران خان نے بطور وزیرِا عظم گزشتہ برس ایک انٹرویو میں امریکہ کو افغانستان میں کارروائی کے لیے فوجی اڈے دینے کے سوال کے جواب میں 'ایبسلوٹلی ناٹ' کہا تھا۔
'لیپ ٹاپ کے لیے 10 ارب نکل سکتے ہیں تو انتخابات کے لیے 20 ارب کیوں نہیں'
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کے لیے مشکل کام ہے۔ کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟
اُنہوں نے کہا کہ صوبوں کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا وفاق کی آئینی ذمے داری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں۔معاشی صورتِ حال سے کل آگاہ کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا تھا کہ کہ الگ الگ الیکشن کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ نے الیکشن کمیشن کے بیان پر کہا تھا۔ اُنہوں نے ایسا کہا ہو گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معاملہ ترجیحات کا ہے۔ لیپ ٹاپ کے لیے 10 ارب روپیے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے 20 ارب کیوں نہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر رواں ماہ ہی پنجاب میں انتخابات کے لیے 30 اپریل کا شیڈول جاری کیا تھا۔
تاہم گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے ان انتخابات کو آٹھ اکتوبر تک ملتوی کردیا تھا۔
کمیشن نے انتخابی عمل اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کی عدم دستیاب کو جواز بنایا تھا۔
اس کے علاوہ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے صوبے میں 28 مئی کو انتخابات کی تاریخ دی تھی۔ البتہ گزشتہ ہفتے انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو ایک خط ارسال کیا کہ صوبے میں آٹھ اکتوبر کو الیکشن کرائے جائیں۔
گورنر نے صوبے میں الیکشن مؤخر کرنے کی وجہ امنِ عامہ کی صورتِ حال کو قرار دیا ہے۔