"مجھے بہت رونا آتا تھا۔ میں ہر وقت یہی سوچتی تھی کہ مجھے کوئی اسکول داخلہ نہیں دیتا۔ میں کیسے پڑھوں گی، کیسے اپنے خواب پورے کروں گی، کیسے آگے بڑھ پاؤں گی؟"
یہ کہنا ہے 15 سالہ کرن رفیق کا جو ایچ آئی وی کی مریضہ ہیں۔ لیکن اب نہ صرف اسکول جاتی ہیں بلکہ اپنی کلاس کی ہونہار طالبہ ہیں۔
کرن کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہے۔ کرن کو کم عمری میں ہی خون کی منتقلی کے دوران ایچ آئی وی کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ جس کے بعد ان کی اور ان کے والدین کی زندگیوں میں مشکلات کا آغاز ہوا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کرن نے بتایا کہ "والد نے کئی اسکولوں میں ان کے داخلے کی کوششیں کیں۔ وہ جب اسکول انتظامیہ کو میری بیماری کا بتاتے تو اسکول اُنہیں داخلہ دینے سے انکار کر دیتا، کہ کہیں یہ بیماری دوسرے بچوں کو نہ لگ جائے۔"
کرن کا کہنا ہے کہ یوں انکار کرنے والے اسکولوں کی فہرست طویل ہوتی گئی اور کرن کی تکلیف میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن پھر انہیں ایک ایسے اسکول میں داخلہ ملا جو صرف ایسے بچوں کے لیے بنایا گیا تھا جو کسی نہ کسی موذی بیماری کا شکار ہیں۔
انڈس اسپتال کے احاطے میں 2018 سے ایک ہال میں قائم 'انڈس کے ستارے' نامی اسکول ایسے بچوں کو تعلیم دے رہا ہے جو موذی امراض کے سبب اسکول جانے سے قاصر ہیں یا انہیں اس بیماری کی وجہ سے کوئی اسکول داخلہ دینے کو تیار نہیں۔
اسکول کی انچارج کنیز فضا کے مطابق اس اسکول میں بچوں پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک اور سختی نہیں کی جاتی۔
کنیز کا کہنا ہے کہ اس اسکول میں سردیوں اور گرمیوں کی تعطیلات نہیں ہیں۔ اس لیے یہاں پڑھائے جانے والا کورس چھ ماہ میں مکمل کرایا جاتا ہے۔ اُن کے بقول اسکول صبح نو بجے سے 12 بجے تک کا ہے اور یہ وقت وہ ہے جب اسپتال میں مریضوں کا رش بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔
اس کلاس روم میں پڑھنے والا ہر بچہ کسی نہ کسی موذی بیماری کا شکار ہے۔ دورانِ پڑھائی کوئی بچہ بریک لیتا ہے تو گمان ہوتا ہے کہ شاید دیگر عام بچوں کی طرح یہ بچہ باہر کوئی چکر لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے یا پھر پانی پینے کے بہانے گیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔
یہ بچے یا تو انجیکشن لگوانے کے لیے بریک لیتے ہیں یا ان کی کیمو تھراپی کی کال آجاتی ہے یا پھر ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت ہو جاتا ہے۔
'انڈس کے ستارے' اسکول میں ایک تکلیف دہ علاج ان بچوں کی زندگی کا معمول بن چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے چہروں پر نظر آنے والی خوشی اور پڑھائی کے لیے بے تابی بتاتی ہے کہ یہ بچے کتنے باہمت ہیں۔
ڈرائنگ کے دوران اپنی کرسی سے بار بار کھڑے ہو کر کلاس میں ٹہلنے والی نو سالہ نمرہ کو دیکھ کر خیال آیا کہ وہ شاید ڈرائنگ میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ لیکن وجہ جاننے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے دل کی سرجری کو ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا۔ وہ اس عارضے کے سبب کسی عام اسکول میں داخلہ نہیں لے سکتی تھیں کیونکہ ان کی بیماری حساس نوعیت کی ہے۔
اس اسکول میں وہ نہ صرف شوق سے پڑھ رہی ہیں بلکہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور شرارتیں کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔
کنیز فضا کے مطابق یہاں آنے والے بچوں اور ان کے والدین نے انھیں بتایا کہ جب ان کے بچے کی بیماری کا علم عزیزوں یا رشتے داروں کو ہو جائے تو ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔ جس کا اثر بچے پر پڑتا ہے۔
والدین کے بقول کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیماری ان کے بچوں کو بھی اس بچے کے ساتھ رہنے، بیٹھنے یا کھانے پینے سے لگ جائے گی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گھر آنے والے ان بچوں کے برتن تک علیحدہ کر دیتے ہیں۔ جس کے سبب یہ بے رحمانہ رویہ بچوں کے لیے رنج کا سبب بن جاتا ہے۔
کرن کے حوالے سے کنیز فضا نے بتایا کہ وہ یہاں علاج کے لیے آیا کرتی تھیں۔ انھیں اس اسکول میں لانے والی ان کی ڈاکٹر تھیں۔ جب کرن آئیں تو یہاں بچوں کو پڑھتا دیکھ کر ان کا دل بھی چاہا کہ وہ اس کا حصہ بنیں۔ یوں وہ اس اسکول میں پڑھنے لگیں اور اب وہ اپنی پڑھائی کا ذکر اپنے ان چھوٹے بہن بھائیوں سے بہت خوشی سے کرتی ہیں، جو اسکول جاتے ہیں۔
آٹھ سالہ اشتہار علی سرطان کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنے والدین کے ہمراہ کوئٹہ سے کراچی علاج کی غرض سے آئے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ سے وہ اس اسپتال میں زیر علاج ہیں اور علاج مکمل ہونے میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
اشتہار پڑھ لکھ کر پائلٹ بننے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن اپنے شہر اور وہاں کے اسکول کو اب بھی یاد کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اشتہار نے بتایا کہ وہ اس اسکول میں پڑھنے سے اس لیے بھی خوش ہیں کہ اسپتال اور اسکول دونوں ایک ساتھ ہیں۔ انہیں جب ڈاکٹر کشور سے ملنا ہو، خون کا ٹیسٹ ہو یا کیمو تھراپی، وہ اسکول سے اسپتال کے وارڈ کا سفر منٹ میں طے کر لیتے ہیں۔
اسکول کی چھٹی ہوتے ہی اشتہار اپنے والد کے ہمراہ چلڈرن وارڈ چلے گئے۔ جہاں ان کا بون میرو ٹیسٹ ہونا تھا۔ تکلیف کا احساس کم ہو۔ اس لیے انھیں نرس نے انجیکشن لگایا کہ وہ غنودگی میں جاسکیں۔ لیکن وہ اس کیفیت میں بھی تھوڑی دیر قبل پڑھائے جانے والے حساب کے سبق کو دہرا رہے تھے۔
اسپتال کے شعبہ اطفال کے سربراہ ڈاکٹر فرید الدین کے مطابق اس اسکول کا قیام اس لیے بھی ضروری تھا کہ دورانِ علاج ایسے بچوں کا اسکول کم سے کم دو برس کے لیے چھڑوا دیا جاتا ہے کیونکہ ایسے بچوں کا اسپتال میں بار بار داخل ہونا یا ٹیسٹ ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فرید کا مزید کہنا تھا کہ ایسے حالات میں ان بچوں کا میل جول و دیگر سرگرمیاں نہ صرف محدود ہو جاتی ہیں۔ بلکہ اسکول ختم ہونے کے سبب وہ احساس محرومی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
اُن کے بقول تکلیف دہ اور صبر آزما علاج کے دوران یہ بچے نہ صرف تنہائی پسند ہو جاتے ہیں۔ بلکہ دیگر محرومیوں کے ساتھ جینے لگتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس اسکول کو بنایا گیا تاکہ یہ بچے خود کو دیگر بچوں سے مختلف محسوس نہ کر سکیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فرید نے بتایا کہ اسکول میں نہ صرف بچوں کو معیاری اور بلا معاوضہ تعلیم فراہم کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر فرید کے مطابق ان بچوں کے تعلیمی سلسلے کو جوڑنے کی اس کاوش کے بعد سے بچوں میں بہت واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔
'پہلے ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ بچے کہہ رہے ہوں کہ آ ج ہمارے انجیکشن کے ڈوز کا دن ہے، آج ہماری کیموتھراپی ہے، بلڈ ٹیسٹ ہے، سی ٹی اسکین ہے، ایم آر آئی ہے یا ڈاکٹر کا وزٹ ہے۔ لیکن جب یہ بچے اس سارے ماحول سے نکل کر اسکول میں جاتے ہیں تو روزانہ صبح میں آنے کے بعد انھیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ آج کلاس میں فلاں ایکٹیویٹی ہے، آج ڈرائنگ ڈے ہے، اسٹوری سننی ہے، ٹیسٹ ہے یا آج جو ہوم ورک ملا ہے وہ گھر جا کر پورا کرنا ہے۔'
ڈاکٹر فرید کے مطابق یہ بچے بہت ہمت سے ان بیماریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ کیمو کی ڈرگز جب جسم میں داخل ہوتی ہیں۔ تو بہت تکلیف دیتی ہیں۔
اُن کے بقول کیمو سے بچوں کو درد محسوس ہوتا ہے۔ لیکن کسی بھی لمحے پر وہ یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ مجھے ہی کیوں۔ وہ یہ نہیں سوچتے ہم بڑوں کی طرح کہ اللہ تعالی نے یہ ساری مشکلات اور مصیبتیں ہمارے لیے ہی کیوں رکھی ہیں۔
ڈاکٹر فرید کے بقول انہوں نے یہاں پر بچوں کونہ صرف بنتے دیکھا ہے، بڑھتے دیکھا ہے اور ہمیں ہمت دلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب ہم ان کے پاس جاتے ہیں اور ہمارے چہرے پر کوئی افسردگی سی ہو تو یہی بچے ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ نہیں۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہمیں پتا ہے ہم ٹھیک ہو جائیں گے۔