چین کی ایک عدالت نے اُس سائنسدان کو تین سال قید کی سزا سنا دی ہے جس نے جینیاتی تبدیلی کے حامل بچوں کی افزائش کا دعویٰ کیا تھا۔
عدالت نے سائنسدان اور اس کے دیگر تین معاون محققین کو غیر قانونی طبی تحقیق کرنے کے جرم میں سزا سنائی ہے۔
چین کے سائنسدان ہی جین کوئی نے گزشتہ برس اُن جڑواں بچیوں کی پیدائش سے متعلق بتایا تھا جو جینیاتی تبدیلی کی حامل تھیں۔ ان کی اس تحقیق پر دنیا بھر کے سائنسدان حیران تھے۔
ہی جین کوئی کو دنیا کا پہلا سائنسدان تصور کیا جاتا ہے جس نے جینیاتی تبدیلی کے حامل بچوں کی افزائش پر تحقیق کی تھی۔
عدالت نے ہی جین کوئی پر 30 لاکھ ین کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
جین کوئی کے ساتھ جینیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے جن دیگر دو محقیقین کو سزا سنائی گئی ہے ان میں ژانگ رینلے اور کن جن ہوئی شامل ہیں۔ جنہیں بالترتیب دو سال اور 18 ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے ان پر دو سال کی تحقیق کی پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ڈاکٹروں نے چین کے قوانین اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اُن کے اقدام کا مقصد شہرت کا حصول تھا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق تینوں ڈاکٹر میڈیکل آرڈر میں خلل ڈالنے کے مرتکب قرار پائے ہیں۔
ڈاکٹر ہوئی نے گزشتہ برس نومبر میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے سائنسی طریقہ 'سی آر آئی ایس پی آر' کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کے 'جین' میں تبدیلی کی ہے جس سے اُنہیں ایچ آئی وی سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
چین کے خبر رساں ادارے 'ژن ہوا' کے مطابق جینیاتی تبدیلی کے حامل بچوں کی پیدائش ڈاکٹر ہوئی کے تجربات کے بعد ہوئی ہے اور اس سے قبل اس کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
گزشتہ برس نومبر میں جینیاتی تبدیلی کی حامل بچیوں کی پیدائش کی خبر سامنے آنے پر دنیا بھر کے سائنسدان حیران تھے۔ معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد پولیس نے ڈاکٹر ہوئی کو حراست میں لے لیا تھا۔
حکومت نے بعدازاں جینیاتی تبدیلی پر کی جانے والی تحقیق روک دی تھی اور ڈاکٹر ہوئی کو یونیورسٹی سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ دنیا کے کئی ملکوں کی طرح چین میں بھی جینیاتی تبدیلی کے سائنسی طریقے سے بچوں کی پیدائش پر پابندی عائد ہے۔
اس سلسلے میں چین کی وزارتِ صحت نے 2003 میں جینیاتی تبدیلی سے بچوں کی پیدائش کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔