امریکی محکمہ خارج نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ''قریبی اور معمول کے تعلقات کا خواہاں ہے، جو بات خطے کے مفاد میں ہوگی''۔
محکمہ خارجہ کے معاون ترجمان، مارک ٹونر نے منگل کے روز روزانہ اخباری بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ''یہی بات ہم اس پوڈیم سے متعدد بار کہتے آئے ہیں''۔
اُن سے بھارت کی جانب سے سارک سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر رد عمل کے لیے کہا گیا تھا، جو اجلاس اگلے ماہ پاکستان میں ہونے والا ہے۔
مارک ٹونر نے کہا کہ بھارت کے اس فیصلے پر تبصرہ بھارت ہی سے لینا چاہیئے۔ تاہم، ترجمان نے کہا کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی بات چیت میں کشیدگی کا خاتمہ ہو--- جس کے ہم خواہاں ہیں''، جب کہ، ترجمان نے دونوں کے درمیان ''بہتر اور وسیع مکالمہ اور رابطہ اپنانے'' پر زور دیا۔
کشیدگی میں کمی لانے سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے، ترجمان نے کہا کہ ہمارے لیے اس کا طریقہ تجویز کرنا مناسب نہ ہوگا۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ''ہم متعدد بار کہتے آئے ہیں کہ امریکہ تنائو میں کمی چاہتا ہے۔ لیکن، اس کا دارومدار زمینی حقائق اور اقدام پر ہوگا''۔
تاہم، ترجمان نے کہا کہ ''یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہوگا کہ تنائو میں کمی لائی جائے، اور کشیدگی میں کمی لانی ہوگی جس کے لیے رابطے کی زیادہ معقول راہیں اپنانی ہوں گی''۔
مبینہ طور پر سرحد پار دہشت گردی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ ''پاکستان نے داخلی طور پر بعض دہشت گرد گروپوں کے خلاف اقدام میں پیش رفت دکھائی ہے، جو پاکستان کی سرحدوں کے اندر حملے کرتے ہیں''۔
ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان پر دبائو ڈالتے رہے ہیں کہ وہ اُن گروپوں کے خلاف اقدام کرے'' جو پاکستان کی سرحدوں پر محفوظ ٹھکانے تلاش کرتے ہیں''، اور ''جو خطے میں کہیں اور حملے کا ارادہ رکھتے ہیں''۔