امریکہ کے ایوانِ بالا (سینیٹ) نے اُس قرارداد کو کثرتِ رائے سے منظور کر لیا ہے جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے خلاف عسکری کارروائی کے اختیارات میں کمی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جمعرات کو سینیٹ کے 100 ارکان نے ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن ٹم کین کی طرف سے پیش کردہ قرارداد پر ووٹ ڈالے۔ قرارداد کا مقصد صدر ٹرمپ کے ایران کے خلاف کسی بھی محاذ آرائی کے اختیارات میں کمی لانا تھا۔
قرارداد کے حق میں 55 اور مخالفت میں 45 ووٹ پڑے۔ ری پبلکن جماعت کے آٹھ ارکان نے صدر ٹرمپ کے جنگی اختیارات میں کمی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیے۔
صدر ٹرمپ کے مواخذے کی حالیہ کارروائی کے دوران ری پبلکن سینیٹرز اپنی جماعت کے صدر کے ساتھ تھے۔ تاہم ایران کے خلاف جنگی اختیارات میں کمی کی قرارداد منظور کرانے میں بعض ری پبلکن پارٹی کے ارکان نے ڈیموکریٹس کا ساتھ دیا ہے۔
یاد رہے کہ تین جنوری کو امریکہ کے ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور اس کے جواب میں آٹھ جنوری کو امریکی ایئربیس پر ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔
حزبِ اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ایران کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا۔
سینیٹ میں ری پبلکن جماعت کو اکثریت حاصل ہے اور اس کے ایوان میں 53 ووٹ ہیں جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے 47 ارکان ہیں۔
ایک ہفتے قبل اسی سینیٹ نے اکثریتی رائے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا کیس مسترد کرتے ہوئے اُنہیں دو الزامات سے بری کیا تھا۔
جمعرات کو سینیٹ میں قرارداد کی منظوری کے بعد ری پبلکن پارٹی کے سینیٹرز کا کہنا ہے کہ قرارداد کی منظوری سے غلط پیغام دیا گیا ہے۔
ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کی فارن ریلیشن کمیٹی کے چیئرمین جم رش نے کہا کہ "ہمیں کمزور کے بجائے مضبوط پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے۔"
سینیٹ میں قرارداد کی منظوری کے بعد سینیٹر ٹم کین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور فوج تعینات کرنے کے کسی بھی فیصلے پر کانگریس کی اہمیت کی عکاسی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید تھی کہ مستقبل میں صدر ٹرمپ کی جانب سے کسی بھی فوجی کارروائی پر سینیٹ کی منظور کردہ قرارداد اثر انداز ہو گی۔
اُن کے بقول، صدر کو احساس ہونا چاہیے کہ عوام کیا سوچتے ہیں۔ سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کے ذریعے ہم صدر ٹرمپ کو بتا رہے ہیں کہ کسی بھی نئی جنگ کا آغاز غلط ہو گا اور یہ ایک بڑی غلطی ہو گی۔
قرارداد کی حمایت کرنے والے ارکان کا کہنا ہے کہ اعلانِ جنگ کا اختیار کانگریس کا ہے اور وہ صدر سے یہ اختیار واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے لیے اُنہیں مزید حمایت مل رہی ہے۔
قرارداد کے حامی سینیٹرز کے مطابق آئین نے اعلانِ جنگ کا اختیار صدر کو نہیں بلکہ کانگریس کو دیا ہے لیکن دونوں جماعتوں (ری پبلکن اور ڈیمو کریٹس) کی جانب سے حالیہ چند برسوں کے دوران یہ اختیار قانون سازوں کی رائے کے بغیر صدر کو منتقل کر دیا ہے۔