پاکستان فلم، ٹیلی وژن اور تھیٹر انڈسٹری کے معروف اداکار عثمان پیرزادہ کا کہنا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے پاکستانی سینما ترقی کررہا ہے البتہ ہم بھارتی فلموں سے ٹکر لینے کی کوشش میں اپنی کہانیاں نہیں بتارہے۔
عثمان پیرزادہ ان دنوں شمالی امریکہ میں ہیں جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ کچھ وقت گزار رہے ہیں اور تارکینِ وطن کے موضوع پر ایک فلم پر بھی کام کررہے ہیں جس میں ان کے بھائی عمران پیرزادہ ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
اپنے قریبی دوستوں میں 'پیرو' کے نام سے جانے والے عثمان پیرزادہ کو بچپن میں ان کے گھر والے 'گگو' کہتے تھے۔ اداکار نے اپنے والد رفیع پیزادہ اور بڑے بھائی سلمان پیرزادہ سے متاثر ہو کر تھیٹر سے اپنی فنی سفر کا آغاز کیا جس کے بعد لکھنے کے ساتھ ہدایت کاری اور پروڈکشن بھی کی۔
عثمان پیرزادہ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ ذاتی طور پر انہیں سب سے زیادہ ہدایت کاری پسند ہے۔ ان کے بقول تھیٹر اداکار کا میدان ہے جب کہ فلم ہدایت کار کا، تھیٹر میں اداکار اپنے فن سے خوبصورتی لے کر آتا ہے جب کہ فلم میں پردے پر ہدایت کار کا تصور جھلکتا ہے۔
سن 1976میں ہدایت کار جاوید جبار کی تخلیق اور پاکستان کی پہلی انگریزی فلم 'بیانڈ دی لاسٹ ماونٹین' سے اداکاری کا آغاز کرنے والے عثمان پیرزادہ نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا۔ بعدازاں وہ سن 1979میں فلمی دنیا سے دور ہو گئے اور صرف تھیٹر کرنے لگے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت بننے والی فلموں سے اکتا گئے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں پنجابی فلم انڈسٹری نے پنپنا شروع کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف پنجابی فلمیں پاکستانی سینما گھروں پر راج کرنے لگیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عثمان پیرزادہ کہتے ہیں کہ پنجابی فلموں نے تشدد اور ہیجان انگیزی کو فروغ دیا اور اسی چیز کو دیکھتے ہوئے وہ فلموں سے دور ہوگئے۔ لیکن پھر سن 1986 میں انہوں نے ہدایت کاری کی دنیا مٰیں قدم رکھا اور فلم 'نزدیکیاں' بنائی۔ یہ فلم اُس دور میں ایک بالکل مختلف موضوع پر بننے والی چند فلموں میں سے ایک تھی جس نے نہ صرف باکس آفس پر شاندار کارکردگی دکھائی بلکہ کئی ایوارڈزبھی جیتے۔
اداکار کے مطابق انہوں نے خود بھی پنجابی فلموں میں کام کیا اور 'گوری دیاں جھانجراں' جیسی فلم بھی بنائی جس میں مار دھاڑ سے ہٹ کر ایک خالص گھریلو کہانی دکھائی گئی اور شائقین نے اسے خوب پسند بھی کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ پنجابی کلچر میں بہت سی کہانیاں، روایات، فوک موسیقی اور صوفیا کرام کا اپنا کلام ہے جن پر بہترین فلمیں بن سکتی ہیں لیکن افسوس ہے کہ ہم نے ان چیزوں کو کریدا بھی نہیں۔
پاکستانی فلموں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عثمان پیرزادہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلم ایک کمرشل میڈیم میں جس میں آپ نے نہ صرف کئی لوگوں کے ساتھ کام کرنا ہے بلکہ زیادہ لوگوں کو اپنا کام دکھانا ہے۔ ان کے بقول وہ خود کہتے ہیں کہ فلم کمرشل ہی ہوتی ہے اور اس کو ویسے ہی بنانا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کمرشل فلم میں اپنی کہانیاں نہیں سنا سکتے۔
'پاکستانی فلموں میں زیادہ تر لوگوں کا کام قابلِ ستائش نہیں'
عثمان پیرزادہ کے مطابق پاکستان میں آج کل جو فلمیں بنتی ہیں ان میں کچھ لوگ تو اچھا کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن زیادہ تر کا کام قابلِ ستائش نہیں ہے۔ تکنیکی اعتبار سے پاکستانی سینما ترقی کررہا ہے لیکن ہم بھارتی فلموں سے ٹکر لینے کی کوشش میں اپنی کہانیاں نہیں بتارہے۔
ان کےبقول جب وہ سینسر بورڈ میں تھے تو انہیں ایسی فلمیں دیکھ کر افسوس ہوتا تھا جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا تھا۔ بہت سے بچے باہر سے پڑھ کر بھی آرہے اور ان کے پاس پیسہ بھی ہے لیکن ویژن نہیں ہے۔
عثمان پیرزادہ نے مزید کہا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں سیاست کا بہت عمل دخل رہا ہے اور مختلف ادوار میں فلموں پر پابندیاں لگتی رہی ہیں جس سے تخلیقی تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔
SEE ALSO: نوجوان اداکاروں سے بڑی عمر کے کردار کرانا سینئرز کی حق تلفی ہے: نعمان اعجازانہوں نے ضیا الحق کے دور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ٹائم پر بہت زیادہ سینسر کی پابندیاں تھیں جس کی وجہ سے سینما بھی پستی کی طرف چلا گیا تھا۔عثمان پیر زادہ کے بقول ماضی میں پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری اس لیے اچھا کام کرتی رہی کیوں کہ وہ حکومت کے زیرِ نگرانی تھی اور صرف ایک چینل پاکستان ٹیلی وژن نیٹ ورک (پی ٹی وی) تھا جہاں سب پڑھے لکھے اور ریڈیو کے تجربہ کار لوگ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ٹی وی ڈرامہ بہترین پروڈکٹ پیش کرتا رہا۔
اداکار عثمان پیرزادہ 2003میں اپنی اہلیہ ثمینہ پیرزادہ کی فلم 'شرارت' میں کام کرنے کے بعد سے فلموں سے دور ہیں اور ٹیلی وژن ڈراموں میں ہی کام کررہےہیں۔ ان کے مطابق اگر انہیں ایک ہی طرح کے رول ملتے ہیں تو وہ پیسوں کے لیے وہ کردار کرتے ہیں۔البتہ انہیں ان کی عمر اور شخصیت کے لحاظ سے کہانیاں اور کردار کم ملتے ہیں۔