امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو وعدوں کی پاسداری کے لیے جواب دہ ٹھہرانا ضروری ہے۔
پاکستانی عہدیداروں سے ملاقات کے بعد ایک وڈیو بیان میں امریکی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک ایسا مستحکم اور شراکت داری پر مبنی افغانستان سب کے مفاد میں ہے جو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناگاہ نا بن سکے۔
امریکی سفارت کار نے گزشتہ 42 سالوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے اور افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے پر پاکستان کو سراہا جنھیں تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہم افغان عوام اور ہر جگہ انسانی وقار اور خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کی حمایت کے لیے مل کر کام کریں گے۔
امریکی سفارت کار نے کہا کہ پاکستانی عہدیداروں سے بات چیت کا محور اگرچہ افغانستان رہا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ موسمیاتی بحران، جیو اکنامکس اور علاقائی رابطوں اور کرونا وائرس کی وبا کے خاتمے کے لیے تعاون پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو رواں سال کرونا ویکسن کی ایک کروڑ 60 لاکھ خوراک عطیہ کیں جبکہ مزید 96 لاکھ خوراکیں جلد پاکستان پہنچ جائیں گی۔
اس سے قبل بھارت کا دورہ مکمل کرنے کے بعد، وینڈی شرمن اسلام آباد پہنچیں جہاں انھوں نے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق وینڈی شرمن اور شاہ محمود قریشی کی اس ملاقات میں افغانستان کی صورتِ حال، علاقائی امن و امان اور دو طرفہ تعلقات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اور امریکہ علاقائی اور عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد امریکہ کے کسی بھی اعلیٰ سفارت کار کا یہ اسلام آباد کا پہلا دورہ ہے۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب افغانستان سے انخلا کے بعد اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں بظاہر سرد مہری پائی جاتی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن سے ملاقات میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں قیامِ امن کے لیے امریکہ کے ساتھ وسیع البنیاد، طویل المیعاد اور پائیدار تعلقات چاہتا ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے مابین منظم بات چیت کا عمل اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی مفاد کے لیے ناگزیر ہے۔
کابل میں طالبان کے کنٹرول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے توقع ظاہر کی کہ افغانستان میں نئی انتظامیہ امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوشش کے ساتھ ساتھ افغان عوام کی بھلائی کے لیے کام کرے گی۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کی ترقی و استحکام کے لیے وہاں ایک ایسی جامع اور وسیع حکومت ضروری ہے جس میں تمام نسلی اقلیتوں کی نمائندگی موجود ہو۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ رابطوں کو برقرار رکھا جائے۔ وہاں اقتصادی امداد جاری رہنی چاہیے تاکہ افغان عوام کو در پیش معاشی مشکلات کا ازلہ ہو سکے۔
بین الاقوامی برادری کا بھی مطالبہ رہا ہے کہ طالبان کی حکومت کو اس صورت تسلیم کیا جائے گا جب وہ ایک ایسی جامع حکومت قائم کریں گے جس میں تمام افغان نسلی اقلیتوں کو شامل کیا جائے۔ جب کہ خواتین کے حقوق کو بھی تحفظ حاصل ہو۔
امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کا مسلسل اصرار رہا ہے کہ طالبان بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں۔
امریکہ کی اعلیٰ سفارت کار کے دورہٴ پاکستان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات پر اسلام آباد کے ’انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ سے منسلک بین الاقومی امور کی تجزیہ کار ماہ رخ خان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے یہ توقع ہے کہ وہ طالبان پر اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ طالبان افغانستان میں ایک جامع حکومت قائم کریں جس میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی ہو اور خواتین کے حقوق کا احترام کیا جائے۔
ماہ رخ کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اگرچہ اپنے تعلقات کو افغانستان کی نظر سے ہی دیکھ رہا ہے۔ جب کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔ البتہ اسلام آباد کو توقع ہے کہ امریکہ پاکستان میں سرمایہ کاری، تجارت اور دیگر شعبوں میں تعلقات کو وسعت دے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ افغانستان کا پڑوسی ملک ہونے کے ناطے امریکہ کے لیے پاکستان اہم رہے گا۔
ان کے مطابق امریکہ کو افغانستان تک فضائی راہداری کے سہولت کے ساتھ ساتھ پاکستان سے خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے تعاون درکار ہو گا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کانگریس کو آگاہ کر چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا افغانستان کے تناظر میں از سرِ نو جائزہ لے گا۔
دوسری جانب پاکستان میں سول اور ملٹری قیادت پر مشتمل فورم ’قومی سلامتی کمیٹی‘ نے افغانستان کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ انسانی بحران سے بچنے کے لیے مدد فراہم کی جائے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیرِ اعظم عمران خان نے افغانستان کی صورتِ حال پر خصوصی سیل بنانے کی ہدایت بھی کی جہاں افغانستان کے لیے مختلف کوششوں کو یک جان کیا جاسکے اور اس کے ساتھ ساتھ بہتر بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے افغانستان کی صورتِ حال کے منفی اثرات سے پاکستان کو بچایا جاسکے۔