کراچی کے آرٹس کونسل میں اتوار کو سندھ لٹریچر فیسٹیول کا آخری روز تھا۔ تین روزہ فیسٹیول کے تمام سیشنز پروگرام کے مطابق ہوئے جن میں تاریخ، ڈرامہ، خواتین، معاشرتی مسائل، شاعری، میڈیا، موسیقی اور فنون لطیفہ کے علاوہ مختلف سیاسی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ان مباحثوں میں سندھی، اردو اور بلوچی زبان کے کئی نامور ادیب، شعرا، لکھاریوں اور فن کاروں نے شرکت کی اور تبادلۂ خیال کیا۔
بحث میں حصہ لینے والوں نے چبھتے معاشرتی مسائل پر بھی سیر حاصل گفتگو کی اور سیاست کی گھتیاں سلجھانے کی بھی کوشش کی۔
آخری روز شام کو ایک سیشن بلوچستان کی تاریخ اور سیاست پر 'بلوچ تاریخ اور سیاست پر مذاکرہ' کے عنوان سے رکھا گیا تھا جس میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رکن بلوچستان اسمبلی ثناء اللہ بلوچ، وزیرِ خزانہ بلوچستان ظہور بلیدی اور طالبِ علم رہنما ماہ رنگ بلوچ نے شرکت کرنا تھی۔ لیکن ظہور بُلیدی کی شرکت سے معذرت کے بعد اس سیشن کے لیے بلوچستان کے مشہور ادیب اور دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری اور بزرگ سیاست دان نواب یوسف مستی خان کو دعوت دی گئی۔
اس سیشن میں شریک لوگوں کی گفتگو سننے کے لیے کراچی کے آرٹس کونسل میں بہت پہلے ہی ملیر اور لیاری سمیت شہر کے دیگر علاقوں کے علاوہ حب، وندر، لسبیلہ اور کراچی کے نزدیک واقع بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد پہنچی تھی۔ البتہ انہیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ سیشن منسوخ کردیا گیا۔
ایسے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری، ماہ رنگ بلوچ اور مذاکرہ سننے آئے نوجوانوں، خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد پولو گراؤنڈ سے منسلک بارہ دری پہنچے اور وہیں مذاکرہ شروع کر دیا جس میں بلوچستان کے مسائل پر گفتگو کی گئی۔
آرٹس کونسل میں آخر یہ سیشن کیوں نہ ہوسکا؟
سندھ لٹریچر فیسٹیول میں بلوچستان پر ہونے والے اس سیشن کے ماڈریٹر عابد میر تھے جنہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سیشن کے انعقاد پر آرٹس کونسل کی انتظامیہ ایک روز قبل ہی شش و پنج کا شکار تھی۔ ان کے بقول پھر اتوار کو بھی انتظامیہ نے پیغام دیا کہ چوں کہ سیشن میں شرکت کے لیے مہمان موجود نہیں تو اسے منسوخ کر دیا جائے۔ حالاں کہ تمام شرکا وقت سے پہلے پہنچے ہوئے تھے سوائے ثناء اللہ بلوچ کے جنہوں نے بذریعہ ویڈیو کانفرنس مذاکرے میں شرکت کرنا تھی۔
عابد میر کا دعویٰ ہے کہ آرٹس کونسل انتظامیہ نے انہیں واضح طور پر یہ سیشن منسوخ کرنے کا کہا۔ ان کے بقول سندھ لٹریچر فیسٹیول کے منتظمین یہ کوشش کرتے رہے کہ یہ سیشن ہو جائے کیوں کہ اس کی منسوخی ان کے لیے زیادہ پریشان کن بات تھی۔ لیکن انتظامیہ نے واضح کیا کہ آرٹس کونسل میں یہ سیشن منعقد نہیں ہو سکتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سوال پر کہ آخر منتظمین کو مذاکرے کے مہمانوں پر اعتراض تھا یا پھر اس سیشن کے موضوع پر، عابد میر نے بتایا کہ شرکا کے بارے میں تو ایک ہفتے پہلے ہی بتایا جا چکا تھا۔ ان کے پوسٹرز اور شیڈول بھی جاری کیا گیا تھا اور اسپیکرز کے انتخاب پر کوئی اعتراض سرے سے اٹھایا ہی نہیں گیا۔
عابد میر کے مطابق انہیں نہیں لگتا کہ اس سیشن میں کچھ ایسا ہونا تھا جس پر اعتراض کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کی انتظامیہ اس کی منسوخی کے حق میں نہیں تھی۔ منتظمین نے پینل ٹیم سے مل کر سیشن کو تبدیل کرنے اور اس میں لچک ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی کیوں کہ ان کی خواہش تھی کہ سیشن کو بے ضرر بنا کر ہی ہونے دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔
عابد میر کے بقول کہ بلوچستان سے متعلق سیشن منسوخ کرنے کا فیصلہ بالواسطہ 'مقتدر قوتوں' اور براہِ راست آرٹس کونسل انتظامیہ کی طرف سے ہوا۔ ان کے مطابق آرٹس کونسل انتظامیہ ان قوتوں کے سامنے جھک گئی اور بلوچ آواز کو دبانے میں حصے دار بنی۔
'ایونٹ کرانے کی ذمہ داری فیسٹیول کے منتظمین کی تھی'
لیکن دوسری جانب آرٹس کونسل انتظامیہ نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔
کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا کہنا ہے کہ آرٹس کونسل کا کام صرف فیسٹیول کے لیے جگہ کی فراہمی تھا۔ پروگرام سے آرٹس کونسل کے منتظمین کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں احمد شاہ نے کہا کہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کے کسی سیشن کے انعقاد کو روکنے کے لیے انہوں نے کسی سے نہیں کہا اور نہ ہی آرٹس کونسل کے عہدیداران کو کسی قسم کے دباؤ یا مطالبے کا سامنا کرنا پڑا۔