"یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ بعض عورتیں سہہ جاتی ہیں، کچھ ماحول میں ڈھل جاتی ہیں اور جو آواز اٹھائیں انہیں توڑ دیا جاتا ہے". یہ کہنا ہے اٹلی میں پاکستانی مشن کی سابق ٹریڈ آفیسر سائرہ علی کا جن کے مطابق انہیں ان کے سابقہ باس اور مشن کے سربراہ ندیم ریاض سے اٹلی کے دارالحکومت روم میں تعیناتی کے دوران مسلسل جنسی ہراسانی کا سامنا رہا۔
سائرہ نے چار سال تک وفاقی محتسب ادارہ برائے جنسی ہراسانی میں اپنا کیس لڑا اور حال ہی میں جیت گئیں۔ خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور کارکنان نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ سائرہ کی ٹویٹ پڑھ کر میں نے ان سے ان چھ سالوں کی روداد جاننے کے لیے رابطہ کیا تو کیس جیتنے کے باوجود ان کے لہجے میں خوشی کی کوئی رمق نہیں تھی۔
ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں 16 سال کی سروس کے بعد جب ڈائریکٹر انٹرنیشنل ایگزیبیشنز سائرہ علی کو ان کی پہلی بیرون ملک پوسٹنگ کے بارے میں پتہ چلا تو وہ بہت خوش تھیں کیونکہ بیرون ملک تعیناتی کسی بھی سول سرونٹ کے کرئیر کا خواب ہوتی ہے۔
سائرہ بتاتی ہیں کہ اٹلی کے دارالحکومت روم میں پاکستانی سفارت خانے میں کام کرنے اور وہاں سے اپنے ملک کے لیے نئے کاروباری روابط بنانے کا عزم لیے وہ جب وہاں پہنچیں تو جلد ہی خود کو مشکلات میں گھرا پایا۔
سائرہ کے بقول 2016 میں ان کی روم منتقلی کے بعد جو ان کے ساتھ ہوا اس نے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دی۔
اب تو انصاف مل گیا ہے، مطمئن ہیں؟ اس پر سائرہ کا کہنا تھا کہ انصاف کی طلب میں انہوں نے ابھی صرف پہلی سیڑھی ہی عبور کی ہے کیونکہ اس کیس پرابھی مزید تین اپیلوں کی گنجائش موجود ہے۔
اس کیس میں سائرہ علی کے وکیل بیرسٹر احمد پنسوٹہ ملازمت کی جگہوں پر انسداد ہراسانی 2010 کے قانون کو بہتر بنانے کی کوششوں میں دیگر وکلاء اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے ساتھ سفارشات دینے میں پیش پیش بھی رہے ہیں۔ کام کی جگہوں پر انسداد ہراسانی ترمیمی ایکٹ 2022 اسی سال جنوری میں باقاعدہ قانون بنا ہے۔
بیرسٹر احمد پنسوٹہ کے مطابق وفاقی محتسب کےفیصلے کے بعد اپیل کا حق تو ایک ہی ہے جو صدر پاکستان سے کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ رٹ جیورسڈکشن کی صورت میں کھٹکھٹایا جاتا ہے یعنی کوئی شہری یہ دعویٰ کرے کہ کیس میں اس کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس پر اعلیٰ عدالتیں اس درخواست کو سننے کی مجاز ہوں گی۔
وفاقی محتسب ادارہ برائے جنسی ہراسانی نے کیس کے مکمل جائزے، گواہوں کے بیانات اور شواہد کی روشنی میں اٹلی میں سابق سفیر پاکستان ندیم ریاض کی برطرفی کے حکم کے ساتھ انہیں شکایت کنندہ کو پچاس لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ یاد رہے چونکہ ندیم ریاض اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو چکے ہیں، یہ برطرفی علامتی تھی۔
سابق سفیر ندیم ریاض کے وکیل شجرعباس ہمدانی نے وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ کیا ان کے موکل سزا کے خلاف اپیل کریں گے؟ کہا کہ فیصلہ سنا دیا گیا ہے، فیصلے پر سات دن میں عملدرآمد کی بھی پابندی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ سات روز سے زائد گزر چکے ہیں لیکن تفصیلی فیصلہ ہی جاری نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے فیصلے کی تفصیل دیکھے بغیر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
سائرہ کا کہنا ہے کہ گو کہ ان 4 برسوں میں کرئیر کو پہنچنے والے دھچکے، کیس کے مالی اخراجات اور اس سے بھی زیادہ اہم ان کی صحت کو شدید نقصان پہنچا ہے مگر FOSPAH کے فیصلے کے بعد انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کو اپنا وقار اور عزت لوٹا دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کم از کم اب لوگ انہیں شک بھری نظروں سے تو نہیں دیکھیں گے۔
خود پر گزری بیان کرتے ہوئے سائرہ علی نے بتایا کہ روم تعیناتی کے دوران انہوں نے ہراسانی کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے ہر وہ اقدام کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ سیکریٹری تجارت کو تحریری شکایات بھیجیں اور ان سے بات بھی کی مگر سائرہ کے بقول انہیں جواب دیا گیا کہ ندیم ریاض اچھے انسان ہیں آپ "ایڈجسٹ" کریں۔
سائرہ کے مطابق انہوں نے فوسپاہ کو اپنی شکایت میں بتایا کہ جب انہیں کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ اپنے دفتر کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے لگ گئیں۔ اس پر بھی جب ہراسانی کا سلسلہ نہیں رکا تو انہوں نے اپنے باس، سفیر پاکستان کا خود سامنا کیا جس پر بقول سائرہ کے وہ طیش میں آگئے اور اس کے بعد انہیں طرح طرح سے پریشان کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔کبھی ان سے کام کے لیے انتہائی ضروری مترجم واپس لے لیا گیا تو کبھی کئی ماہ تک ان کی تنخواہ روک لی گئی. سائرہ بتاتی ہیں کہ مشن پر آنے والے بجلی کے بلز غائب کر دیے جاتے جس کی وجہ سے بل بر وقت نہ بھر پانے پر ان کے گھر کی بجلی کٹ گئی۔
SEE ALSO: خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو ہراساں کرنے کا واقعہ؛ ’اعلیٰ عہدوں پر موجود خواتین کو دباؤ میں رکھا جاتا ہے‘سائرہ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاندانہ ماحول میں بھی کام کرتی رہیں یہاں تک کے انہیں تعیناتی کی تین سال کی مدت ختم ہونے سے ایک سال پہلے ہی پاکستان واپس بھیج دیا گیا جسے وہ انتقامی کارروائی کا ہی حصہ سمجھتی ہیں۔
اس عرصے میں سائرہ کی دو سال کی پرفارمنس رپورٹس آج تک جمع نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے ان کی ترقی شاید کبھی نہ ہو پائے۔
واپسی پر بعض دوستوں نے وفاقی محتسب میں شکایت درج کرانے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ کا یہ کہنا تھا کہ اس میں انہیں بدنامی کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا مگر سائرہ نے ہمت پکڑی اور شکایت درج کرائی۔
خود سے طاقتور شخصیات اور نظام سے جنگ کا سفر بہت طویل اور تھکا دینے والا نکلا۔ FOSPAH نے وزارت خارجہ اورتجارت کی ہراسمنٹ کی شکایات سننے والی کمیٹی کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی کارروائی خود سننے کا فیصلہ کیا۔
سائرہ کے بقول پاکستان واپسی پر وزارت تجارت میں بھی ان کے لیے ماحول پریشان کن ہی رہا اور ان سے کہا گیا کہ وہ شکایت واپس لے لیں۔ کچھ عرصے بعد ان کا تبادلہ وزارت صنعت میں کر دیا گیا۔
یہاں پہنچ کر بھی سائرہ کو احساس ہوا کہ ان کا غلط تعارف ان سے پہلے ہی نئے ادارے پہنچ چکا ہے۔ ان کے بقول دفتر کے ساتھی بات کرنے سے کتراتے تھے، ایسا بھی ہوتا کہ وہ کسی کولیگ سے بات کرنے پہنچتیں تو وہ چپڑاسی کو بلا کر ساتھ کھڑا کر لیتا۔ لیکن آہستہ آہستہ ساتھیوں کو سائرہ کی سمجھ آگئی۔ نئے دفتر میں اپنے لیے ماحول بہتر بنانے میں وہ اپنے نئے باس کو بھی کریڈٹ دیتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
FOSPAH میں کیس کا اپنے حق میں فیصلہ آنے کے باوجود سائرہ کے بہت سے سوال ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہراسانی کی شکایات عموماً باسز کے خلاف ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ طاقتور پوزیشن میں ہوتے ہیں تو شکایت لے کر انسان کہاں جائے؟ اداروں میں جو انسداد ہراسانی کمیٹیز ہیں اس میں تینوں ممبران اسی ادارے سے کیوں ہوتے ہیں جن پر باس اثر انداز ہو سکتا ہو، اس میں کم از کم ایک نیوٹرل رکن ادارے کے باہر سے ہونا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سائرہ نے گو کہ انصاف کی پہلی سیڑھی عبور کر لی ہے لیکن وہ سوچتی ہیں کہ وفاقی محتسب میں ہی چار سال لگ گئے، ابھی جب اپیل کا موقع موجود ہے اور اس کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی جایا جاسکتا ہے تو نہ جانے کتنے سال لگ جائیں۔
ان کا سوال ہے کہ وفاقی محتسب ادارہ ایک خصوصی باڈی ہے تو پھر جلد فیصلہ دینے کا پابند کیوں نہیں ؟
اس سوال کا جواب خود ان کے وکیل بیرسٹر احمد پنسوٹہ ہی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وفاقی محتسب ادارہ برائے جنسی ہراسانی ایک خصوصی قانون کے تحت بنایا گیا ہے اور اس کے فیصلے عموماً جلد ہی آتے ہیں مگر اس کیس میں پہلے کووڈ لاک ڈاونز تا خیر کی وجہ بنے پھر شواہد اور بیانات تفصیل سے داخل کرنے میں وقت لگا۔ بیرسٹر احمد پنسوٹہ کے مطابق اس سب کے ساتھ ساتھ وکیل دفاع کی جانب سے بھی کیس کو طول دینے کی ہر ممکن کوشش شامل رہی۔ ان کا اندازہ ہے کہ صرف کراس ایگزامینیشن کی ہی 19 سنوائیاں ہوئیں۔
کیا وفاقی محتسب ادارہ برائے جنسی ہراسانی کے نظام کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے؟ اس پر بیرسٹر احمد پنسوٹہ کا کہنا ہے کہ اس کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے بقول پہلے تو صوبائی محتسب ادارے بھی وفاقی ادارے کی طرح مستعدی دکھائیں اور اگر کیس میں بار بار التوا کی گنجائش نہ رکھی جائے اور التوا کو دو سے تین دفعہ تک محدود کر دیا جائے تو فیصلے تیز تر ہو سکتے ہیں۔
پہلے ہراسانی اور پھر انصاف کے لیے روح جھلسا دینے والی تگ و دو جس میں بار بار شکایت کرنے والے سے ہی چبھتے سوال پوچھے جاتے رہے، سائرہ کا کہنا ہے ان تمام واقعات کے بعد ا ن کی شخصیت پہلے والی رہی ہی نہیں۔ ان کا کئی سال سے انگزائٹی اور ڈپریشن کا علاج چل رہا ہے۔ سائرہ کہتی ہیں کہ جب وہ لوگوں میں ہوتی ہیں تو مصروف ہو جاتی ہیں لیکن اکیلے میں یہ باتیں پھر انہیں گھیر لیتی ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی۔