خواتین کو ہراساں کرنا کوئی ڈھکا چھپا مسئلہ نہیں۔ امریکہ ہو یا پاکستان، خواتین کو کبھی گھر کے اندر، تو کبھی گھر سے باہر، اسکول، کالج کے راستے یا دفتر میں ایسے پریشان کن رویوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے زمرے میں آتے ہیں۔ جوں جوں خواتین افرادی قوت میں شامل ہو رہی ہیں، ان کی جانب سے کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کرنے کے واقعات کی شکایات بھی سامنے آ رہی ہے۔
کسی جنسی ہراسانی یا ان چاہی جسمانی دست درازی کی کوشش کے خلاف احتجاج اور اس کی شکایت تک پہنچنے کی جرات سے پہلے خاتون کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ اور جنسی ہراساں کیے جانے کی شکایت کو درج کرانے کے لیے پاکستان میں حالات کتنے سازگار ہیں؟
یہی موضوع تھا اس ہفتے وائس آف امریکہ کے ہفتہ وار پروگرام ع۔ مطابق کا۔ ہمارا یہ پروگرام ہر پیر کو پاکستان میں رات نو اور بھارت میں ساڑھے نو بجے وائس آف امریکہ کے یو ٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر پیش کیا جاتا ہے۔
ورک پلیس ہراسمنٹ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں خواتین کا مسئلہ ہے۔ اگرچہ 'می ٹو' مہم کے بعد بڑے بڑے برج گرتے نظر آئے مگر اب بھی کئی ممالک میں ایسی آوازیں آسانی سے دبا دی جاتی ہیں۔
چین کی سب سے بڑی ای-کامرس کمپنی علی بابا کی ایک خاتون ملازم کو حال ہی میں ایک سینئر ساتھی پر ریپ کے الزام کی شکایت کے بعد ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ کچھ ہی ہفتوں پہلے چین کی نمبر ون خاتون ٹینس اسٹار پینگ شوائی کی سوشل میڈیا پوسٹ جس میں انہوں نے ملک کے سابق نائب وزیر اعظم پر زیادتی کا الزام لگایا تھا ہٹا دی گئی۔ پینگ شوائی چند ہفتوں کے لیے منظرِ عام سے بھی غائب رہیں۔
دوسری جانب امریکہ میں ابھی دو ماہ قبل ہی مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی کمپنی افینیٹی کے پاکستانی نژاد بانی ضیاء چشتی کو جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کیا جانا ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے لیکن اس کا حل اس سے نظریں چرانا نہیں بلکہ قوائد و ضوابط بنانا، ان کی آگاہی پھیلانا اور ان پر عمل درآمد ہے۔
پاکستان میں سال 2010 میں ملازمت کی جگہوں پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے 'پروٹیکشن فرام ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس' قانون پاس کیا گیا۔ اس کے اگلے سال وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسانی کا ادارہ بھی قائم ہوا جس کا کام ہی سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں کام کرنے والی خواتین کی ہراسانی کی شکایات کو سننا اور ان پر فیصلہ دینا ہے۔
فیڈرل اومبڈسمین سیکریٹریٹ فار پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ یا (فوسپاہ) کی موجودہ سربراہ، قانون دان اور سابق رکنِ قومی اسمبلی کشمالہ طارق ہیں۔ جو اس ہفتے ع۔ مطابق میں ہماری مہمان بھی تھیں۔
فوسپاہ کی ویب سائٹ پر نظر ڈالیں تو تقریباً 150 ایسے کیسز نظر آئیں گے جن کے فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔ ان میں کئی ہائی پروفائل کیسز بھی شامل ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ اداروں میں عارضی ملازمین کے پاس نہ زیادہ مراعات ہوتی ہیں نہ حقوق۔ ان کی آواز کی حیثیت نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں ہوتی۔ تاہم فوسپاہ کے ایک حالیہ فیصلے میں وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے ایک عارضی ملازم کا جنسی ہراسانی کا کیس سننے کے بعد ڈائریکٹر جنرل پیمرا حاجی آدم کو عہدے سے برطرف کرتے ہوئے شکایت کنندہ کو 20 لاکھ معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
اسے ایک دلیرانہ فیصلہ قرار دیا گیا۔ فروری 2020 میں کیس شروع ہونے پر ڈی جی پیمرا کو پہلے ہی معطل کر دیا گیا تھا تاکہ کیس کی تحقیقات شفاف طریقے سے ہو سکیں۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام ع۔مطابق میں خواتین کی ہراسانی کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کشمالہ طارق کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں 'می ٹو' موومنٹ سے ہراسانی کی شکار خواتین کو تقویت ملی ہے مگر پاکستان میں بدقسمتی سے اسے متنازع بنا دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ مقصد خواتین کو مدد فراہم کرنا تھا اس لیے فوسپاہ نے 'می ٹو' کے الفاظ سے اجتناب کرتے ہوئے ہراسانی کو ہی گفتگو کا محور بنائے رکھا اور یوں انصاف کی جلد فراہمی نے خواتین کی بڑی تعداد کو آگے آنے کا حوصلہ دیا۔
کیا عورت غلط الزام نہیں لگاتی؟
کشمالہ کے مطابق وہ خود ایک عورت ہیں اور جانتی ہیں معاشرے میں کس کس طرح خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "لوگ کہتے ہیں کہ عورتیں جھوٹا الزام لگاتی ہیں، میں خدا کو حاضر ناظر جان کے کہتی ہوں میں نے کبھی ایسا کیس نہیں دیکھا جہاں غلط الزام لگایا گیا ہو"۔
انہوں نے کہا کہ ایک عورت جنسی ہراسانی کی شکایت کے بعد مزید تکلیفیں ہی دیکھتی ہے۔ ساتھ کام کرنے والے تنقید کرتے ہیں، انتقامی کارروائیاں ہوتی ہیں، نام بدنام ہوتا ہے، اکثر ملازمت بھی چلی جاتی ہے۔ تو کوئی عورت کیوں اتنا گھاٹے کا سودا کرے گی؟ کشمالہ کی نظر میں یہ عورتیں ہیرو ہیں جو اس ظلم کے آگے سر نہیں جھکاتیں۔
سال 2010 کے قانون اور اس کے دائرۂ اختیار پر انسانی حقوق کے کارکنوں کو کئی اعتراضات تھے۔
قانون میں ورک پلیس یعنی کام کی جگہ کی تعریف محدود ہونے کی ہی وجہ سے معروف گلوکارہ میشا شفیع کے کیس پر اس قانون کا اطلاق نہ ہو پایا۔
میشا شفیع کے ایک وکیل اور قانون دان محمد احمد پنسوٹا کا نام بھی ان کارکنوں میں شامل ہے جنہوں نے اس بل کو بہتر بنانے کے لیے سفارشات پیش کیں۔
احمد پنسوٹا کہتے ہیں کہ میشا شفیع کے کیس نے اس قانون میں موجود خامیوں کو ظاہر کیا، خود میشا تو اس سے استفادہ نہ کر پائیں مگر ان کے کیس سے دوسری بہت سی خواتین اور مردوں کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔
قانون میں ترامیم کے اثرات
البتہ اس قانون میں ترامیم کے بعد نہ صرف آجر اور ملازم کی تعریف وسیع ہو گئی ہے بلکہ اب اس قانون کے تحت خواتین کے ساتھ ساتھ مرد اور ٹرانسجینڈرز بھی جنسی ہراسانی کی شکایات درج کرا سکیں گے۔
دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین کے علاوہ اداکار، گلوکار، فری لانسرز، آن لائن کاروبار کرنے والے اور گھریلو ملازمین بھی اس قانون کے تحت اپنی شکایات درج کرا سکیں گے۔
اگر آپ بینک یا پاسپورٹ آفس میں ہراسانی کا شکار ہوئے ہوں تو وہ صرف ملزم کے ملازمت کی جگہ ہے، تاہم آپ وہاں کے صارف ہونے کے ناطے شکایت کرنے کے حق دار ہیں۔ اسی طرح طالبِ علم بھی ہراسانی پر اساتذہ کی رپورٹ کرسکیں گے۔
کشمالہ طارق چاہتی ہیں کہ عدلیہ جنسی ہراسانی کے کیسز میں نرمی نہ دکھائے۔ ان کے بقول جنسی ہراسانی کے کیسز اگر عدالت جاتے ہیں تو فیصلہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ جج کون ہے اور ان کی سوچ کیا ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ قانون میں ترامیم کے بعد ہر جج کی جانب سے اس کی اپنے طور پر تشریح کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔
تاہم محمد احمد پنسوٹا کے مطابق گو کہ ہراسانی کی تعریف وسیع کی گئی ہے جس کے بعد جسمانی اور زبانی ہراسانی کے ساتھ ساتھ نہ صرف اشارے، گُھورنا، اور اسٹاکنگ یا مستقل اور مختلف طریقوں سے پیچھا کرنا بھی قابل سزا عمل ہوں گے بلکہ صنف کی بنیاد پر ناپسندیدہ گفتگو اور امتیاز بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ البتہ اس سب کے باوجود ججز کی جانب سے قوانین کی اپنے طور پر تشریح کی گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی۔
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی ہراسمنٹ ایکٹ میں ترامیم منظور کر لی ہیں۔ صدر پاکستان کے دستخطوں کے بعد جب یہ باقاعدہ قانون کا حصہ بن جائیں گی تو اس کے ساتھ ہی فوسپاہ کا دائرہ اختیار بھی وسیع ہو جائے گا۔
اس ترمیمی بل کا جائزہ لینے والی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے رکن سینیٹر فیصل سبزواری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بل میں ترامیم مثبت سمت میں ایک قدم ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عموماً قوانین پاس تو ہو جاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد میں سستی دیکھنے میں آتی ہے۔ تاہم اس قانون کے معاملے میں پولیس اور عدلیہ کے بجائے فوسپاہ کا رخ کرکے بھی انصاف حاصل کیا جاسکتا ہے جس سے ہراسانی کے شکار افراد کو انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی۔
فوسپاہ کا توسیعی کردار
کشمالہ کہتی ہیں کہ وہ اس ادارے میں ایک ایسا ماحول ترتیب دینا چاہتی ہیں جہاں ہراسانی کے شکار افراد فوسپاہ کے طریقۂ کار پر اعتماد کریں اور بلا خوف اپنی کہانی بیان کر سکیں۔
مگر ہراسانی کے واقعات اکثر لوگوں اور کیمروں کی نظروں سے دور پیش آتے ہیں۔ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کیا ہراسانی کے شکار افراد خاموش رہیں؟ اس سوال پر کشمالہ کا کہنا تھا کہ ہراساں کرنے والے عام طور پر تواتر سے نا زیبا پیش قدمیاں کرتے رہتے ہیں اس لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ حاضر دماغی دکھاتے ہوئے اس دوران ثبوت اکٹھا کریں۔
اس کے لیے وہ کہتی ہیں،"سب سے پہلے تو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا ذکر کسی سے ضرور کریں، اپنے گھر والوں سے، دوستوں سے یا ساتھیوں سے۔ اس طرح واقعے کے شاہدین تیار ہوتے ہیں۔ پھر کوئی بھی لکھے گئے اور بھیجے گئے میسیجز، تصاویر، وائس نوٹس محفوظ رکھیں۔ فون کالز ریکارڈ کریں، اس طرح سے کیس مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔"
ان کے بقول پرائیویٹ سیکٹر کے مقابلے میں سرکاری اداروں سے زیادہ شکایتیں آتی ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حکومتی اداروں میں ملازمتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ نجی اداروں میں انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے خواتین سامنے آنے سے گھبراتی ہیں۔
کشمالہ تسلیم کرتی ہیں کہ خواتین کا یہ خدشہ درست ہے کہ اسی لیے وہ بطور محتسب سب سے پہلے یہ بات یقینی بناتی ہیں کہ شکایت کنندہ کی ملازمت کو خطرہ نہیں ہوگا۔ فوسپاہ فیصلہ دینے کے بعد بھی اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ شکایت کنندہ کو پریشان تو نہیں کیا جا رہا۔
فوسپاہ کا سفر جاری ہے
اس سوال پر کہ کیا آپ فوسپاہ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ کشمالہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ ایک سفر ہے جو جاری ہے۔ کل تک اس ملک میں قوانین نہیں تھے آج قانون بن گیا ہے، لوگ آگے بڑھ رہے ہیں، انصاف ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔
کیونکہ اکثر ملزمان فوسپاہ میں جاری کیسز کو عدالتوں میں لے جاتے ہیں اس لیے کشمالہ کی نظر مں عدلیہ کی سپورٹ اس سلسلے میں ہمیشہ درکار رہے گی کہ انہیں تاریخوں پر تاریخیں نہ دی جائیں جو کہ کیس خراب کرانے کے ہتھکنڈے ہوتے ہیں جس سے مظلوم کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "بطور ادارہ ہمارا مشن، قصد اور عزم صرف یہی ہے کہ عزت سب کے لیے ہے۔ کام کریں اور کام کرنے دیں۔"