متحدہ عرب امارات میں تعینات پاکستان کے سفیر جمیل احمد خان نے شاہ رخ کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
کراچی —
شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شا ہ رخ جتوئی نے دبئی میں رضاکارانہ طور پر اپنی گرفتاری پیش کر دی ہے۔ وہ 27 دسمبر کو دبئی فرار ہو گئے تھے جس کے بعد سے پاکستانی پولیس ان کی گرفتاری کے لیے کوشاں تھی۔
متحدہ عرب امارات میں تعینات پاکستان کے سفیر جمیل احمد خان نے شاہ رخ کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شاہ رخ جتوئی نے دبئی میں پاکستانی قو نصل خانے میں خود آکر گرفتاری پیش کی۔
جمیل احمد نے بتایا کہ شاہ رخ جتوئی کو ضابطے کی کارروائی پوری ہوتے ہی پاکستان روانہ کر دیا جائے گا۔ دبئی میں پہلے سے موجود سندھ پولیس کے اہلکار شاہ رخ جتوئی کو لے کر پاکستان جائیں گے۔
شاہ زیب کو 25 دسمبر کو کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔ مقتول کے لواحقین نے اس قتل میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو ملزم نامزد کیا ہے۔
پاکستان کے نجی ٹی وی 'اے آر وائی نیوز' سے دبئی میں بات کرتے ہوئے شاہ رخ جتوئی کا کہنا تھا کہ ان پر لگائے گئے تمام الرامات بے بنیاد ہیں اور انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔
بقول شاہ رخ، ”میں نے ٹی وی پر سنا ہے کہ میری فیملی کو ہراساں کیا جا رہا ہے اسی لئے میں اپنی گرفتاری پیش کر رہا ہوں“۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پاکستان آکر عدالت میں پیش ہوں گے اور اپنے اوپر لگائے جانے تمام الزامات کا سامنا کرتے ہوئے خود کو بے گناہ ثابت کریں گے۔
شاہ زیب قتل کیس کے دوسرے نامزد ملزم سراج تالپور کو سندھ پولیس نے 5 جنوری کو سندھ کے علاقے مورو سے گرفتار کیا تھا۔
شاہ رخ جتوئی نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ شاہ زیب کا قتل کس نے کیا جبکہ دوسری جانب سراج تالپور نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ شاہ زیب کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ایک رشتے دار نے گولیاں ماری تھیں۔
واردات کے کئی روز بعد تک یہ کیس پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں موضوع بحث بنارہا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گزشتہ ہفتے کیس کی سماعت کے دوران سندھ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو متنبہ کیا تھا کہ ملزمان کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے بصورت دیگر پولیس افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عدالتی کارروائی کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے مختلف علاقوں میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے جس کے نتیجے میں سراج تالپور کے علاوہ مزید تین افراد کو بھی مورو سے حراست میں لیا گیا تھا۔
پولیس نے 11 جنوری کو عدالت عظمیٰ کے باہر سے شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سکندر جتوئی کو شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کے لئے پولیس سے تعاون کرنے کی ہدایت کی تھی۔
متحدہ عرب امارات میں تعینات پاکستان کے سفیر جمیل احمد خان نے شاہ رخ کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شاہ رخ جتوئی نے دبئی میں پاکستانی قو نصل خانے میں خود آکر گرفتاری پیش کی۔
جمیل احمد نے بتایا کہ شاہ رخ جتوئی کو ضابطے کی کارروائی پوری ہوتے ہی پاکستان روانہ کر دیا جائے گا۔ دبئی میں پہلے سے موجود سندھ پولیس کے اہلکار شاہ رخ جتوئی کو لے کر پاکستان جائیں گے۔
شاہ زیب کو 25 دسمبر کو کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔ مقتول کے لواحقین نے اس قتل میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو ملزم نامزد کیا ہے۔
پاکستان کے نجی ٹی وی 'اے آر وائی نیوز' سے دبئی میں بات کرتے ہوئے شاہ رخ جتوئی کا کہنا تھا کہ ان پر لگائے گئے تمام الرامات بے بنیاد ہیں اور انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔
بقول شاہ رخ، ”میں نے ٹی وی پر سنا ہے کہ میری فیملی کو ہراساں کیا جا رہا ہے اسی لئے میں اپنی گرفتاری پیش کر رہا ہوں“۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پاکستان آکر عدالت میں پیش ہوں گے اور اپنے اوپر لگائے جانے تمام الزامات کا سامنا کرتے ہوئے خود کو بے گناہ ثابت کریں گے۔
شاہ زیب قتل کیس کے دوسرے نامزد ملزم سراج تالپور کو سندھ پولیس نے 5 جنوری کو سندھ کے علاقے مورو سے گرفتار کیا تھا۔
شاہ رخ جتوئی نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ شاہ زیب کا قتل کس نے کیا جبکہ دوسری جانب سراج تالپور نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ شاہ زیب کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ایک رشتے دار نے گولیاں ماری تھیں۔
واردات کے کئی روز بعد تک یہ کیس پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں موضوع بحث بنارہا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گزشتہ ہفتے کیس کی سماعت کے دوران سندھ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو متنبہ کیا تھا کہ ملزمان کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے بصورت دیگر پولیس افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عدالتی کارروائی کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے مختلف علاقوں میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے جس کے نتیجے میں سراج تالپور کے علاوہ مزید تین افراد کو بھی مورو سے حراست میں لیا گیا تھا۔
پولیس نے 11 جنوری کو عدالت عظمیٰ کے باہر سے شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سکندر جتوئی کو شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کے لئے پولیس سے تعاون کرنے کی ہدایت کی تھی۔