سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ملک کی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔
ایک قرارداد میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مینیجنگ کمیٹی نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ ہائی کورٹ بار کے صدر ضیاالحق مخدوم اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔ بار کے مطابق، لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مکمل طور پر غیر آئینی ہے اس فیصلے کے خلاف جلد آئینی درخواست دائر کی جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ضیاالحق مخدوم ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ بار نے یہ فیصلہ متفقہ طور پر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پرویز مشرف کو ''غاصب اور آئین توڑنے کا مرتکب'' قرار دیا تھا اس میں بھی سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ہی فریق تھی۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے 31 جولائی 2009 کو ملک میں ایمرجنسی کے قیام کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے 2007 میں ایمرجنسی کا نفاذ غیر آئینی طور پر کیا تھا۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں 14 رکنی بینچ نے یہ قرار دیا تھا کہ 2007 میں پرویز مشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ 70 سے زائد ججز کو عہدوں سے برخاست کرنے کا عمل آئین کے صریح خلاف ہے اور وہ ان اقدامات کے تحت غاصب قرار دیے گئے تھے۔
پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کی کارروائی کیا تھی؟
مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ پر ان کے خلاف خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی جس نے نومبر 2013 میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت شروع کی تھی۔ 31 مارچ 2014 کو ملزم کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی۔
مارچ 2016 میں پرویز مشرف حکومت کی جانب سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام خارج کئے جانے کے بعد علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہوئے۔ اور پھر کئی یقین دہانیوں کے باوجود بھی کبھی عدالت میں پیش ہوئے اور نہ ہی ملک واپس آئے۔ اس مقدمے میں 6 سال کی سماعت کے بعد پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں انہیں دسمبر 2019 میں آئین سے غداری کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
خصوصی عدالت کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ:
تاہم، جنوری 2020 میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر سنگین غداری مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ پرویز مشرف کے وکلا نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، کیونکہ اس کی تشکیل آئین کے مختلف دفعات کے خلاف کی گئی تھی اور خصوصی عدالت کی تشکیل وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر دی گئی تھی جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔ جبکہ آئین میں کی جانے والی 18ویں ترمیم کی روشنی میں آرٹیکل چھ کے تحت آئین کو معطل کرنے کو جرم قرار دیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کے بعد اس آئینی درخواست کو قبول کرتے ہوئے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا، جسے اب سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔