لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگانے اور آئین توڑنے کے الزام میں سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی۔ دیگر ججز میں جسٹس مسعود جہانگیر اور جسٹس امیر بھٹی شامل تھے۔
ہائی کورٹ کے بینچ کے مختصر فیصلے کے مطابق پرویز مشرف کا غداری کے الزام میں کیا جانے والا ٹرائل غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل چھ میں کی جانے والی ترمیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہو سکتا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق کریمنل لا کے سیکشن 9 کے تحت کسی کا غیر موجودگی میں ٹرائل بھی غیر آئینی اور اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے اسپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ 1976 کے تحت خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دیا ہے۔
قبل ازیں پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل کے دوران کہا کہ تین نومبر 2007 کے اقدامات غیر آئینی تو ہو سکتے ہیں لیکن انہیں سنگین غداری قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پرویزمشرف پر غداری کا مقدمہ بنانے کے خلاف درخواست پر سماعت میں طور سرکاری وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان عدالت میں پیش ہوئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کا کیس بنانے کا معاملہ کبھی کابینہ میں ایجنڈا کے طور پر پیش نہ ہوا۔ 2013 میں کابینہ کے فیصلے سے خصوصی عدالت کی تشکیل نہیں ہوئی۔ یہی حقیقت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ8 مئی 2018 میں خصوصی عدالت میں ایک جج کی تقرری کا معاملہ کابینہ میں ڈسکس ہوا۔
اس دوران جسٹسں مظاہر نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے نے جو انکوائری کی وہ کتنے لوگوں نے کی۔ ایمرجنسی لگانے کا حکم تحریری تھا، تو انکوائری کس بات کی تھی۔
جس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے کہا کہ یہ تحقیقات 20 سے 25 افراد نے انکوائری کی تاہم ٹرائل میں صرف سیکریٹری داخلہ پیش ہوئی۔
اس پر جسٹس مظاہر نے کہا کہ ایسی انکوائری کی کیا قانونی حیثیت ہے جس کے ٹرائل میں انکوائری کرنے والے پیش نہیں ہوئے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ آج کے حالات میں کوئی ایمرجنسی لگائے تو کیا اس پر غداری کا کیس چلے گا۔
تو اشتیاق احمد خان نے آگاہ کیا کہ ایمرجنسی میں بنیادی حقوق معطل کیے جا سکتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نے کہا کہ اس طرح تو یہ سلسلہ چل پڑا کہ جسے جو چیز پسند ہو وہ کرے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایمرجنسی لگائی جا سکتی ہے۔
جس پر جسٹس مظاہر نے کہا کہ یہ پھر غداری کیسے ہے۔
آئین میں ترمیم کے حوالے سے اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد ایکٹ کے سیکشن 2 میں بھی ترمیم ضروری تھی جو نہیں ہوئی۔ آرٹیکل 6 میں ترمیم پرویز مشرف کے اقدام کے بعد ہوئی۔ اس لیے سزا نہیں ہو سکتی۔
فیصلہ آنے کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد کا کہنا تھا کہ عدالت نے بینچ کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
عدالتی کارروائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسے کورام برانچ جوڈیس قرار دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جو شکایات دائر کی گئی تھیں ان کی ساری کارروائی کو 'کوئش'کر دیا گیا ہے۔
اس کیس کی گزشتہ سماعت 10 جنوری کو ہوئی تھی جس میں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے پرویز مشرف کے وکلا اور عدالتی معاون کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وفاقی حکومت سے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری طلب کی تھی جب کہ وفاقی حکومت کے وکیل کو پیر 13 جنوری 2020 کو دلائل دینے کا حکم دیا تھا۔
کیس کا فیصلہ آنے کے بعد نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے جنرل ریٹائرد پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ میری طبیعت بہتری کی جانب گامزن ہے ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے جس سے خوشی ہوئی۔ تاہم تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس پر بات کروں گا۔
'خصوصی عدالت کا فیصلہ'
گزشتہ ماہ 17دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔
تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرکے سزائے موت پر عمل درآمد کرائیں۔
فیصلے کے پیرا 66 میں کہا گیا تھا کہ اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹ کر لایا جائے اور 3 دن تک ان کی لاش وہاں لٹکائی جائے۔
اس فیصلے پر پاکستان کی فوج کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ بعد میں حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔
نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کی تھی جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی۔
لا ڈویژن کی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا قرار پایا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ 6 سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔
خصوصی عدالت کی متعدد دفعہ تشکیل نو ہوئی اور ججز بدلتے رہے۔
جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے مقدمہ سنا۔ آخر کار 17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔