|
ویب ڈیسک _ بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے صاحبزادے سجیب واجد جوئے نے کہا ہے کہ عبوری حکومت کی جانب سے الیکشن کے اعلان کے بعد ان کی والدہ وطن واپس لوٹ جائیں گی۔
شیخ حسینہ طلبہ کے احتجاج کے بعد پانچ اگست کو عہدے سے مستعفی ہو کر پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئی تھیں جس کے بعد نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں 15 رکنی عبوری حکومت نے انتظامِ مملکت سنبھال لیے ہیں۔
عبوری حکومت کی ذمے داری الیکشن کرانا ہے۔ امریکہ میں مقیم شیخ حسینہ کے بیٹے نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی والدہ الیکشن کے قریب بنگلہ دیش واپس آ جائیں گی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سجیب واجد نے بھارتی اخبار 'ٹائمز آف انڈیا ڈیلی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شیخ حسینہ کچھ وقت کے لیے بھارت میں ہیں اور جب عبوری حکومت الیکشن کا فیصلہ کر لے گی تو وہ بنگلہ دیش واپس چلی جائیں گی۔
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ شیخ حسینہ آیا انتخابات میں حصہ لیں گی یا نہیں۔ انہوں نے کہا، "میری والدہ اپنی موجودہ مدت مکمل کرنے کے بعد سیاست سے ریٹائرڈ ہو جائیں گی۔"
SEE ALSO: شیخ حسینہ کو کیسے اندازہ ہوا کہ فوج ان کے ساتھ نہیں رہی؟سجیب واجد نے کہا کہ وہ امریکہ میں آباد ہیں اور بنگلہ دیش کی سیاست میں آنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ لیکن گزشتہ چند روز کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بعد بنگلہ دیش میں قیادت کا خلا پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی والدہ کی جماعت کی خاطر سیاست میں سرگرم ہونے کے لیے تیار ہیں اور وہ پارٹی میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
شیخ حسینہ کی عوامی لیگ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہے اور وہ خود بھی نئی دہلی میں کہیں محفوظ مقام پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیشی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیرِ اعظم مودی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی، سیکیورٹی اور امن کے لیے بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا ہے کہ شیخ حسینہ برطانیہ میں پناہ کی تلاش میں ہیں لیکن برطانوی محکمۂ داخلہ نے اس ضمن میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
بھارتی وزیرِ خارجہ جے ایس شنکر نے بنگلہ دیش سے متعلق جمعرات کو اپنے برطانوی ہم منصب سے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے گفتگو کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ گزشتہ تین دہائیوں میں لگ بھگ 20 برس تک برسرِ اقتدار رہی ہیں۔ رواں برس جنوری میں ملک میں ہونے والے انتہائی متنازع انتخابات میں وہ مسلسل چوتھی بار اور مجموعی طور پر پانچویں بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئی تھیں۔
رواں برس ہونے والے انتخابات سے قبل انہوں نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ہزاروں رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرالیا تھا اور انتخابات نگراں حکومت کی نگرانی میں کرانے کا اپوزیشن کا مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ اسی وجہ سے حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
شیخ حسینہ کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب جولائی کے آغاز میں ہائی کورٹ نے سرکاری نوکریوں میں کوٹے کے حوالے سے فیصلہ جاری کیا۔ اس فیصلے کے تحت سرکاری نوکریوں میں لگ بھگ 56 فی صد کوٹہ بحال کردیا گیا تھا۔ اس میں سے 30 فی صد کوٹہ 1971 کی جنگِ آزادی میں حصہ لینے والوں کے لواحقین، 10 فی صد پسماندہ علاقوں کے رہائشی، 10 فی صد خواتین، پانچ فی صد اقلیتوں اور ایک فی صد معذور افراد کے لیے مختص تھا۔ صرف 44 فی صد ملازمتیں میرٹ پر دی جانی تھیں۔
SEE ALSO: ناہد اسلام: شیخ حسینہ کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والے اسٹوڈنٹ لیڈر کون ہیں؟ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے ساتھ ہی طلبہ نے ملک گیر احتجاج شروع کر دیا تھا۔ لیکن طلبہ اور بے روزگاری کے شکار نوجوانوں کے اس احتجاج کو دبانے کے لیے حکومت نے طاقت کا شدید استعمال کیا۔ اس دوران حکومتی عہدیداروں کی جانب سے متنازع بیانات بھی سامنے آئے۔
پندرہ سے 21 جولائی کے درمیان مظاہرین پر سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد اور جھڑپوں میں لگ بھگ 200 افراد مارے گئے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ سرکاری نوکریوں میں کوٹہ صرف سات فی صد ہوگا جب کہ 93 فی صد سرکاری نوکریاں میرٹ پر دی جائیں گی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پانچ فی صد کوٹہ جنگِ آزادی میں حصہ لینے والے افراد کے لواحقین اور دو فی صد دیگر طبقات کے لیے مختص کر دیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد احتجاج میں کمی آئی اور طلبہ تحریک کے رہنماؤں نے مظاہرین پر تشدد کرنے والے پولیس حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ لیکن حکومت کی طرف سے مظاہرین کے خلاف مسلسل سخت اقدامات اور بیانات کے بعد یہ احتجاج شیخ حسینہ کے وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے ایک نکاتی مطالبے کے ساتھ پر تشدد مظاہروں میں بدل گیا۔
طلبہ تحریک کے وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب مارچ کے بعد پانچ اگست کو شیخ حسینہ کو استعفیٰ دے کر بھارت منتقل ہونا پڑا۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔)