بظاہر پرسکون چاند پر زلزلے بھی آتے ہیں اور یہ سکڑ بھی رہا ہے، تحقیق

نیویارک کے افق پر سپر مون کی تصویر

یوں تو چاند مختلف تہذیبوں میں کئی حوالوں سے ایک پسندیدہ ثقافتی استعارہ ہے کیوں کہ عام طور پر اسے خوبصورتی، روشنی اور زمیں پر درپیش چیلنجز کے پیش نظر راحت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

تاہم ایک حالیہ تحقیق نے علم فلکیات میں دلچسپی رکھنے والوں کو اس بات سے حیران کردیا ہے کہ ٹھنڈی روشنی والا یہ قدرتی سیارہ جو صدیوں سے ادیبوں اور شاعروں کے لیے سکون کی علامت ہے، بحرحال ایک مکمل طور پر تصوراتی پرسکون جگہ نہیں ہے بلکہ اس پر زلزلے بھی آتے ہیں اور یہ سکڑ بھی رہا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی فنڈنگ سے ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ جیسے جیسے چاند کا مرکز آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور سکڑتا ہے اس کی سطح پر دراڑیں بنتی ہیں جو 'چاند پر زلزلے' پیدا کرتی ہیں۔

سائنسی جریدے 'پلینیٹری سائنس جرنل' میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق چاند پر دراڑوں کے نتیجے میں آنے والے زلزلے گھنٹوں تک جاری رہ سکتے ہیں اور ساتھ ہی لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بھی بنتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

چاند کس طرح سے وجود میں آیا؟

ایسا خاص طور پر چاند کے جنوبی قطب کی سطح پر دیکھا گیا ہے جو کہ آج کے دور کی بین الاقوامی خلائی دوڑ کا مرکز ہے کیوں کہ اس خطے میں برف کی صورت میں پانی پائے جانے کے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں۔

البتہ، اب یہ سمجھا جارہا ہے کہ ماضی کے علم کے مقابلے میں چاند کا یہ خطہ زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔

چاند کے جنوبی قطب میں خلائی ماہرین کی دلچسپی پچھلے سال اس وقت مزید بڑھ گئی تھی جب بھارت کے 'چندریان تھری' مشن نے اس علاقے میں پہلی کامیاب لینڈنگ کی تھی۔

بھارتی کارنامے کے کچھ ہی روز بعد روس کے لونا-25 خلائی جہاز نے اس خطے پر اترنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ راستے میں ہی تباہ ہو گیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

چندریان تھری کی کامیابی: بھارت اب اسپیس سائنس میں دنیا کے دس اہم ملکوں میں سے ہوگا؟

امریکہ کے خلائی ادارے 'نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن' یعنی ناسا نے اس خطے کو اپنے 'آرٹیمس' مشن کے لیے لینڈنگ سائٹ کے طور پر منتخب کیا ہے جو 2026 میں چاند پر خلابازوں کی واپسی کا اہم سنگ میل بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ چین نے بھی مستقبل میں اس جگہ پر رہائش گاہیں بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

تحقیق کے مطابق حال ہی میں اپالو غیر متحرک زلزلے کے تجربے کے ذریعے مشاہدہ کیا گیا کہ چاند پر آنے والے زلزلوں میں سب سے مضبوط 'مون کویک' یعنی قمری زلزلے کا مرکز اس کے جنوبی قطبی علاقے میں واقع تھا۔

واشنگٹن کے 'اسمتھ سونین انسٹی ٹیوشن' کے ماہر اور اس تحقیق کے رہنما لکھاری ٹام واٹرز نے ناسا کو بتایا کہ چاند کے جنوبی خطے کی سطح پر ہلچل پیدا کرنے والے زلزلے پہلے سے موجود 'فالٹس' کے پھسلنے یا نئے 'تھرسٹ فالٹس' کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

چاند پر جانے والے مشن 'آرٹیمس' کے عملے میں کون شامل ہوگا؟

ناسا کے 'لونر ریکانیسنس آربٹر' کیمرے نے چاند کی سطح میں وسیع پیمانے پر تقسیم ہونے والے ہزاروں نسبتاً چھوٹے، تھرسٹ فالٹس کا پتہ لگایا ہے۔ یہ ڈھلوان والی چٹان نما شکلیں ہیں جو چاند کی سطح پر چھوٹی سیڑھیوں سے ملتی جلتی ہیں۔ یہ اس جگہ بنتی ہیں جہاں سکڑنے والی قوتیں چاند کی اوپر کی سطح کو توڑ دیتی ہیں اور اسے فالٹ کے ایک طرف اوپر اور دوسری طرف دھکیل دیتی ہیں۔

یہ تمام شواہد چاند پر مستقبل کے رہائش کے ارادے سے جانے والے مشنز سمیت پروگراموں کو درپیش ممکنہ چلینجز اور خطرات کے غماز ہیں۔

ٹام واٹرز کہتے ہیں کہ تحقیق سے حاصل ہونے والے یہ انکشافات "کسی کے لیے خطرے کی گھنٹی نہیں ہے اور یقینی طور پر چاند کے جنوبی قطب کے اس حصے کی تلاش کی حوصلہ شکنی نہیں ہے۔"

بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس پر بات کرنا چاند کے مشنز کے حوالے سے احتیاط پیدا کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ "چاند کوئی ایسی نرم جگہ نہیں ہے جہاں کچھ نہیں ہو رہا ہے۔"

SEE ALSO: ناسا کا 12 سال تک چاند پر انسان اتارنے کا منصوبہ

جہاں تک چاند کے سکڑنے کا تعلق ہے تو تحقیق کے مطابق چاند کے ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے اس کی سطح میں سکڑاؤ آتا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ زمین کی طرف سے جانے والی سمندری قوتیں بھی ہیں، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر سکڑاو ہوتا ہے۔

ناسا کے ریاست الاباما میں قائم 'مارشل اسپیس فلائٹ سینٹر' سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے شریک مصنف رینی ویبر کے بقول چاند پر مستقبل میں انسانی سرگرمیوں کے لیے لاحق زلزلے کے خطرے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے، ہمیں نہ صرف قطب جنوبی پر بلکہ بڑی سطح پر نئے زلزلے کے اعداد و شمار کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور ریاست میری لینڈ میں ناسا کے 'گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر' کی سائنس دان ماریا بینکس کہتی ہیں کہ اس مطالعے سے حاصل ہونے والی معلومات چاند پر امریکی واپسی کے مشن کی منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔