بلوچستان: پانچ لاکھ سے زائد خواتین کو شناختی کارڈ کی فراہمی

فائل

صوبائی الیکشن کمشنر محمد نعیم مجید جعفر کا کہنا ہے کہ صوبے کے بعض دور دراز اضلاع میں خواتین کے شناختی کارڈ اب تک نہیں بنے، جس کی وجہ ’نادرا‘ کے پاس اُن کے ریکارڈ کا نہ ہونا ہے۔ تاہم، اب الیکشن کمیشن نے اس طرف بھرپور توجہ دی ہے

صوبہٴ بلوچستان میں قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث 5,70000 ووٹ کے لئے اہل خواتین الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ الیکشن کمشنر بلوچستان کا کہنا ہے کہ ان خواتین کی رجسٹریشن کےلئے اقدامات تیز کر دئے گئے ہیں۔

’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنر محمد نعیم مجید جعفر کا کہنا ہے کہ صوبے کے بعض دور دراز اضلاع میں خواتین کے شناختی کارڈ اب تک نہیں بنے، جس کی وجہ ’نادرا‘ کے پاس اُن کے ریکارڈ کا نہ ہونا ہے۔ تاہم، اب الیکشن کمیشن نے اس طرف بھرپور توجہ دی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی طرف سے کافی کام کیا جا رہا ہے۔ اس پر ہمیں بھی تشویش ہے۔ اس کے لئے ہم نے بعض خاص علاقوں کا انتخاب کیا ہے اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر پچھلے ایک سال سے ڈسٹرکٹ ووٹرز ایجوکیشن کمیٹیز کو دوبارہ فعال بنایا گیا ہے۔

الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ پچھلے چھ ماہ سے جو رپورٹیں آ رہی ہیں وہ کافی حوصلہ افزا ہیں۔ ہم اپنی پوری کوشش کریں گے کہ الیکشن سے پہلے اس کمی کو پُر کرلیں۔ الیکشن کمیشن نے نادرا سے بھی رابطہ کیا ہے جس نے یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی موبائیل ٹیمیں دے گی جو مختلف اضلاع میں جاکر خواتین کو قومی شناختی کارڈ کے اجرا کی سہولت فراہم کریں گی۔

صوبائی الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں فی الحال امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم، انتخابات کے موقع پر صوبے کے بعض حساس علاقوں میں فوج اور فرنٹیر کور بلوچستان کے جوانوں کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔

خواتین کی فلاح و بہبو د کےلئے کام کرنے والی این جی او دانش آرگنائزیشن کی سربراہ، انبیلا انور کا کہنا ہے کہ شناختی کارڈ کے حصول کے لئے حکومت نے جو شرائط رکھی ہیں اُن کو مدنظر رکھ کر آئندہ انتخابات میں غیر اندراج شدہ خواتین کی شرکت ممکن نہیں ہوگی۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’اگر ہم اپنے دور دراز علاقوں میں خواتین کو دیکھیں جن کا نادرا تک جا ہی نہیں سکتیں، اگر اُن کی موبائیل گاڑیاں وہاں جاتی ہیں اور وہاں خواتین کو شناخت کارڈ کے حوالے سے کوئی سہولت فراہم کرتی ہیں، تو پھر اس کے بعد کا جو طریقہ کار ہے، اسناد کی تصدیق کا جو عمل ہے، یہ اتنا پیچیدہ عمل ہے کہ ایک سال میں اس کا کوئی نتیجہ نکلنا ممکن ہی نہیں لگ رہا‘‘۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق، بلوچستان کی آبادی تقریباً 66,00000 لاکھ ہے، صوبے میں اس وقت مرد و خواتین ووٹرز کی کُل تعداد37 لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں خواتین رائے دہندگان کی تعداد تقریباً ساڑھے پندرہ لاکھ ہے۔

قدرتی وسائل سے مالامال اس جنوب مغربی صوبے کے نیم قبائلی معاشرے میں دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو ایسے مواقع کم ہی میسر آتے ہیں کہ وہ انتخابات کے دوران اپنی پسند کے اُمیدوار کو ووٹ دے سکیں، بلکہ خاندان کے سربراہ کی مرضی اور ہدایت کے مطابق ہی خواتین اپنا ووٹ استعمال کرتی ہیں۔