قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے منگل کو دوحہ میں خلیج کی تعاون کی کونسل کے اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ پر، بقول انکے"شرمناک" بین الاقوامی بے عملی پر تنقید کی۔
شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ "عالمی برادری کے لیے شرمناک ہے کہ اس گھناؤنے جرم کو تقریباً دو ماہ تک جاری رہنے دیا جائے، جس کے دوران خواتین اور بچوں سمیت معصوم شہریوں کا منظم اور دیدہ و دانستہ قتل عام جاری ہے۔"
7 اکتوبر کو اسرائیلی حکومت کے مطابق عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے 1,200 افراد کی ہلاکت اور 240 کو یرغمال بنانے کے بعد اسرائیل نے حماس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ سمیت متعدد ملک غزہ میں برسر اقتدار تنظیم حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے تقریباً 15,900 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
قطر ان مذاکرات میں ایک اہم ثالث تھا جن کے نتیجے میں گزشتہ جمعے کے روز تک سات روزہ جنگ بندی ہوئی اور اس وقفے کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان متعدد اسرائیلی یرغمالوں اور فلسطینی قیدیوں سکا تبادلہ ہوا اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ میں امداد کی ترسیل ممکن ہوئی۔
SEE ALSO:
والدین کھونے والا اسرائیلی شہری فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی درمیان امن کا خواہشمندقطر کے حکمران نے کہا کہ ان کا ملک جنگ بندی کی تجدید کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام کسی"مستقل جنگ بندی کا متبادل نہیں ہے"۔
انہوں نے "اسرائیل کی طرف سے ہونے والے قتل عام کی بین الاقوامی تحقیقات" اور سلامتی کونسل سے "اپنی قانونی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا۔
قطر کے حکمران نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے، اور اسرائیل کو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے حصول کے لیے قابل اعتماد مذاکرات کی طرف واپس آنے پر مجبور کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے کچھ ارکان نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کی طرف قدم بڑھایا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے تھے۔ اور سعودی عرب اس کی تقلید کے قریب نظر آرہا تھا۔ لیکن جنگ نے ان سفارتی کوششوں کو روک دیا ہے۔
خلیج تعاون کونسل کا مشترکہ بیان
ایک مشترکہ بیان میں، خلیج تعاون کونسل نے" غزہ میں اسرائیل کی کھلی جارحیت پر گہری تشویش" کا اظہار کیا۔ کونسل نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقفے کے لیے بات چیت کرنے میں قطر، مصر اور امریکہ کی کوششوں کی تعریف کی اور مکمل اور پائیدار جنگ بندی کے حصول کے لیے "فوری طور پر" نئی جنگ بندی پر زور دیا۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور اسرائیل پر" جنگی جرائم" اور غزہ میں انسانیت کے منافی جرائم کا الزام لگایا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ "ان کی جوابداری کی جانی چاہیے۔
اسرائیل کے دیگر مسلمان ملکوں سے تعلقات:
SEE ALSO: اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے عرب ممالک میں عوامی مخالفت بڑھنے لگیامریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اکتوبر میں ایک سیاسی تقریب میں مشرقِ وسطی کی صورت حال پر بات کرتے ہوئےکہا تھا کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں خلل ڈالنا تھا۔
بائیڈن کے تبصرے کے مطابق سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول لانے کا خواہش مند ہے اور وہ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتا ہے۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو ممکنہ طور پر معمول پر لانا امریکی وزیر خارجہ بلنکن کی جون کے دورۂ ریاض کے دوران اولین ترجیح تھی، ہر چند کہ انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ فوری طور پر کسی پیش رفت کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔
حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے ایک روز بعد بلنکن نے سی این این نیوز چینل کو بتایا تھا،"یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ (حملے کے لیے) محرک کا ایک حصہ سعودی عرب اور اسرائیل کو ایک ساتھ لانے کی کوششوں میں خلل ڈالنا تھا۔
اس رپورٹ میں شامل اطلاعات اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔