عالمی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سمارٹ فون اور میوزک سننے کے دوسرے آلات کے بڑے پیمانے پر استعمال سے دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ نوجوانوں کی سماعت کو خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سماعت کو بچانے کے لیے حفاظتی معیارات اور آواز کی محفوظ سطح مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین نے صوتی آلات بنانے والوں کے لیے سماعت سے متعلق بین الاقوامی میعار جاری کیے ہیں، جن پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔
صحت کے عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوجوانوں کی سماعت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہ سمارٹ فونز اور موسیقی کے دوسرے آلات کا استعمال نہ صرف کثرت سے کرتے ہیں بلکہ انہیں بہت اونچی آواز میں سنتے بھی ہیں۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اونچی آواز میں موسیقی اور دوسری صوتی آلات سننے والوں کی تقریباً آدھی تعداد ایسے افراد کی ہے جن کی عمریں 12 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایک ارب 10 کروڑ سے زیادہ نوجوان اونچی آواز میں موسیقی یا دوسری چیزیں سنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہام گیبریسس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ معاملہ یہ نہیں ہے کہ بہت سے نوجوان اونچی آواز میں میوزک سن کر اپنے کانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سماعت کو نقصان پہنچنے کے بعد کوئی ایسی صورت نہیں ہے کہ سننے کی صلاحیت دوبارہ بحال ہو سکے۔
اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً کل آبادی کا پانچ فی صد یعنی ساڑھے 46 کروڑ سے زیادہ افراد بہرے پن کا شکار ہیں جن میں ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ بچے ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے افراد اونچی آواز میں میوزک سننے سے بہرے ہوئے ہیں۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ میوزک لطف اٹھانے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ سماعت کو خراب کرنے کے لیے۔ اس لیے لوگوں، بالخصوص نوجوانوں کو موسیقی سنتے وقت حفاظتی معیارات کو سامنے رکھنا چاہیے۔
ٹیلی مواصلات کے بین الاقوامی ادارے نے انسانی کانوں کے لیے آواز کی صحت کا تعین کر رکھا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اگر مسلسل آٹھ گھنٹوں تک کوئی ایسی آواز سنی جائے جس کی قوت 85 ڈیسیبل ہو تو اس سے سماعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جب کہ 100 ڈیسیبل قوت کی آواز صرف 15 منٹ میں ہی کانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
موسیقی اور دوسرے صوتی آلات میں عموماً آواز کی سطح کی پیمائش کرنے کا ایک میٹر نصب ہوتا ہے۔ جب آواز نقصان دہ حدود میں داخل ہوتی ہے تو میٹر کی سوئی سرخ نشان پر چلی جاتی ہے یا سرخ بتی روشن ہو جاتی ہے۔ یہ نظام سننے والوں کو ممکنہ خطرے سے خبردار کرتا ہے جس پر عمل کیا جانا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے سمارٹ فونز اور صوتی آلات بنانے والوں کو چاہیے کہ صارفین کو اونچا سننے کی نقصان دہ عادت سے بچانے کے لیے اپنے آلات میں خطرے سے آگاہی کا نظام نصب کریں۔
عالمی ادارہ صحت کی عہدے دار شیلی چیدھا نے جنیوا میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ صوتی آلات پر آواز کی سطح بتانے کے میٹر کا نہ ہونا ایسے ہی ہے جیسے آپ ہائی وے پر ایک ایسی گاڑی چلا رہے ہوں جس میں سپیڈو میٹر نہ ہو اور نہ ہی آپ کو یہ علم ہو کہ ہائی وے پر رفتار کی حد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سمارٹ فونز بنانے والوں کو یہ مشورہ دیا ہے وہ اپنے فونز میں آواز کی سطح بتانے کا ایسا نظام نصب کریں جو صارف کو آگاہ کرے کہ خطرے کی حد عبور ہو رہی ہے۔