سنوڈن کے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، اُن میں سرکاری املاک کی چوری، قومی دفاعی اطلاعات کی بغیر اجازت کے ترسیل اور دانستہ طور پر کسی غیر متعلقہ شخص کو انٹیلی جنس کی خفیہ دستاویزات فراہم کرنا شامل ہیں
واشنگٹن —
ایک سال کی عارضی سیاسی پناہ دیے جانے کے بعد، اِن دِنوں امریکی انٹیلی جنس کےسابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن ماسکو میں ہیں، جو امریکہ کو جاسوسی کے الزامات پر مطلوب ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے سینئر نامہ نگار، ایندرے نسنیرا اپنی رپورٹ میں جاسوسی کے معاملات سے متعلق امریکی قوانین کی ایک جھلک پیش کی ہے۔
اُنھوں نے بتایا ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے’نیشنل سکیورٹی ایجنسی‘ کی طرف سےچلائے جانے والے خفیہ نوعیت کے کئی پروگراموں سے متعلق دستاویزات اخبارات کو فراہم کیں۔
امریکی محکمہٴانصاف نے سنوڈن کے خلاف جرم کے الزامات عائد کیے ہیں، جن میں سرکاری املاک کی چوری، قومی دفاعی اطلاعات کی بغیر اجازت کے ترسیل اور دانستہ طور پر کسی غیر متعلقہ شخص کو انٹیلی جنس کی خفیہ دستاویزات فراہم کرنا شامل ہیں۔
اسٹیفن وِلادیک قومی سلامتی کے قانون کے ماہر ہیں اور ’امریکی یونیورسٹی کالج آف لا‘ میں یہ مضمون پڑھاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ آخری دو الزامات کا تعلق 1917ء کے جاسوسی کے قانون سے ہے، جسے پہلی جنگِ عظیم کے دوران منظور کیا گیا تھا۔
ولادیک کہتے ہیں کہ یہ قانون حکومت امریکہ کے ہاتھوں میں ایک ایسا ہتھیار ہے جسے نہ صرف جاسوسی کے ملزمان بلکہ ور افراد بھی اس کے زمرے میں آتے ہیں جو بغیر اجازت کے غیر متعلقہ لوگوں کو خفیہ اطلاعات افشا کرتے ہیں۔
عزیز الحق قومی سلامتی اور آئینی قانون کے ماہر اور یونیورسٹی آف شکاگو میں تدریس سے وابستہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جاسوسی سے متعلق یہ قانون بہت ہی وسیع تر اور پیچیدہ معاملہ ہے جس میں ایک درجن یا اس بھی زیادہ شقیں موجود ہیں، جِو توجیہ و تشریح کے محتاج ہیں۔
اسٹیفن ولادیک نے کہا ہے کہ جاسوسی کے قانون میں لازم مطمع نظر کا عنصر موجود ہے۔
اوباما انتظامیہ نے اب تک سرکاری راز افشا کرنے والے سات ملزمان کو سزا دلوائی ہے، جب کہ جاسوسی ایکٹ میں مقدمہ دائر کیے جانے والوں کی کُل تعداد اس سے دوگنا تھی۔
’وائس آف امریکہ‘ کے سینئر نامہ نگار، ایندرے نسنیرا اپنی رپورٹ میں جاسوسی کے معاملات سے متعلق امریکی قوانین کی ایک جھلک پیش کی ہے۔
اُنھوں نے بتایا ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے’نیشنل سکیورٹی ایجنسی‘ کی طرف سےچلائے جانے والے خفیہ نوعیت کے کئی پروگراموں سے متعلق دستاویزات اخبارات کو فراہم کیں۔
امریکی محکمہٴانصاف نے سنوڈن کے خلاف جرم کے الزامات عائد کیے ہیں، جن میں سرکاری املاک کی چوری، قومی دفاعی اطلاعات کی بغیر اجازت کے ترسیل اور دانستہ طور پر کسی غیر متعلقہ شخص کو انٹیلی جنس کی خفیہ دستاویزات فراہم کرنا شامل ہیں۔
اسٹیفن وِلادیک قومی سلامتی کے قانون کے ماہر ہیں اور ’امریکی یونیورسٹی کالج آف لا‘ میں یہ مضمون پڑھاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ آخری دو الزامات کا تعلق 1917ء کے جاسوسی کے قانون سے ہے، جسے پہلی جنگِ عظیم کے دوران منظور کیا گیا تھا۔
ولادیک کہتے ہیں کہ یہ قانون حکومت امریکہ کے ہاتھوں میں ایک ایسا ہتھیار ہے جسے نہ صرف جاسوسی کے ملزمان بلکہ ور افراد بھی اس کے زمرے میں آتے ہیں جو بغیر اجازت کے غیر متعلقہ لوگوں کو خفیہ اطلاعات افشا کرتے ہیں۔
عزیز الحق قومی سلامتی اور آئینی قانون کے ماہر اور یونیورسٹی آف شکاگو میں تدریس سے وابستہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جاسوسی سے متعلق یہ قانون بہت ہی وسیع تر اور پیچیدہ معاملہ ہے جس میں ایک درجن یا اس بھی زیادہ شقیں موجود ہیں، جِو توجیہ و تشریح کے محتاج ہیں۔
اسٹیفن ولادیک نے کہا ہے کہ جاسوسی کے قانون میں لازم مطمع نظر کا عنصر موجود ہے۔
اوباما انتظامیہ نے اب تک سرکاری راز افشا کرنے والے سات ملزمان کو سزا دلوائی ہے، جب کہ جاسوسی ایکٹ میں مقدمہ دائر کیے جانے والوں کی کُل تعداد اس سے دوگنا تھی۔