پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے جمعے کو 'کشمیر آور' منایا گیا۔ اس سلسلے میں اجتماعات اور احتجاجی جلسوں کا انعقاد کیا گیا۔
عمران خان نے رواں ہفتے پاکستان قوم سے خطاب میں ہر ہفتے کشمیریوں کے لیے آدھا گھنٹہ مختص کر کے اُن کے ساتھ اظہار یک جہتی کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ 30 اگست کو دن 12 بجے سے ساڑھے 12 بجے تک سڑکوں پر نکلیں اور کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کریں۔ اسے 'کشمیر آور' کا نام دیا گیا ہے۔
جمعے کو دن کے 12 بجتے ہی سائرن اور قومی ترانہ بجایا گیا، جس کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک بھی روکی گئی۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے سامنے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں ارکان پارلیمنٹ اور وفاقی وزرا سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اسی طرح کراچی، لاہور، ملتان، کوئٹہ، پشاور سمیت دیگر شہروں میں بھی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں اور ان شہروں میں بھی دن کے بارہ بجتے ہی سڑکوں پر ٹریفک کو روکا گیا۔
پاکستان میں جمعے کی صبح سے ہی سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر 'کشمیر آور' کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ جس میں ٹوئٹر صارفین اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اظہر نامی ٹوئٹر صارف نے وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی ایک ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ کشمیر آور کے موقع پر وزیر اعظم سیکریٹریٹ کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
عثمان ملک نامی ٹوئٹر صارف نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرنے والے اسلام آباد کے اسکول کے طلبہ و طالبات، ملازمین اور عام شہریوں کی تصاویر شیئر کیں۔
مہوش مولوی نامی ٹوئٹر صارف نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ کشمیر آور کے موقع پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے باہر ایک سکیورٹی اہلکار ان کی حفاظت پر مامور ہے۔
ٹوئٹر صارف سید علی سارم اپنی ٹوئٹ میں کہتے ہیں ایک قوم ایک آواز، ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سونالی نامی ٹوئٹر صارف کہتی ہیں 'کشمیر آور ناکام عمران خان کا ایک اور ڈرامہ ہے، انہوں نے نریندر مودی سے کشمیر کے معاملے پر شکست کھائی ہے۔ خدا حافظ عمران خان۔'
معاذ آفریدی نامی ٹوئٹر صارف اپنی ٹوئٹ میں کہتے ہیں کسی ملک، مذہب اور خطے کے لیے کشمیر میں انسانیت کے لیے کھڑے ہو۔
یاد رہے کہ بھارت نے پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کردیا تھا، جس کے تحت کشمیر کو ریاستی حیثیت حاصل تھی اور کسی غیر کشمیری کو وہاں بسنے اور جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔
جموں و کشمیر میں 25 روز سے کرفیو نافذ ہے، تعلیمی ادارے بند اور کاروباری زندگی معطل ہے۔ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر سے متعلق کیے جانے والے حالیہ اقدامات کو اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے جمعرات کو ایک نیوز بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کی طرف سے آنے والے بیانات کا مقصد صورت حال کو خطرناک بنا کر پیش کرنا ہے جو کہ زمینی حقائق سے برعکس ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا نے اس کے اشتعال انگیز اور بے بنیاد بیانات دیکھے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اُن سے رابطے کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان نے بھی کئی عالمی رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں۔
پاکستان کا مطالبہ ہے کہ تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت حل کیا جائے اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق وہاں استصواب رائے کرایا جائے۔