انسانی حقوق کے سرگرم کارکن انصار برنی نے سندھ کے گورنر عشرت العباد کے ہمراہ پیر کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں اعلان کیا کہ صومالی قزاقوں کی قیدسے چار پاکستانیوں سمیت 22 افراد کو رہا کر الیا گیا ہے اور وہ جلد وطن واپس پہنچ جائیں گے ۔
قزاقوں نے ان افراد کی رہائی کے بدلے 21لاکھ ڈالر تاوان کا مطالبہ کررکھاتھا اور انصاربرنی یہ رقم اکٹھی کرنے کے بعد قزاقوں کے نمائندوں سے مذاکرات کے لیے مصر گئے ہوئے تھے جہاں گذشتہ رات تمام معاملات طے پانے کے بعد یہ رہائی عمل میں آئی۔ تاہم انصار برنی کا کہنا ہے کہ 21 لاکھ ڈالر کی رقم اُس شپنگ کمپنی کو ادا کی گئی جس کے بحری جہاز کو قزاقوں نے عملے سمیت اغوا کرلیا تھا۔
انصار برنی نے بھی نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ مصر میں پاکستان کے سفارت خانے اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجا ع پاشا نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔
مغوی پاکستانیوں میں اس جہاز کے کپتان سید وصی حسن،انجینئر سید عالم ،چیف آفیسر علی رحمن اور ڈیزل مکینک محمد مزمل شامل تھے۔ کیپٹن وصی کی دس سالہ بیٹی لیلیٰ نے رواں سال اپریل کے وسط میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ اپنے والد کی رہائی کے لیے اپنے گردے بیچنے کے لیے تیار ہیں اور اس معاملے کی مقامی میڈیا پر نمایاں کوریج کی گئی ۔
کیپٹن وصی نے پیر کو نجی ٹیلی ویژن چینلز سے گفتگو میں اغواء کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہ بحری قزاقوں کی تعداد پانچ تھی۔ ”ایک چھوٹی کشتی میں آئے تھے اُن کے پاس مشین گنز تھیں ، فائرنگ کے بعد وہ جہاز کے اوپر چڑھ گئے ۔ ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور اُنھوں نے ہمیں قید کر لیا“۔
اُنھوں نے بتایا کہ قزاق اغواء کے بعد جہاز میں سوار تما م افرا د کو صومالیہ لے گئے جہاں ہر روز لگ بھگ چالیس افراد اُن کی نگرانی پر معمور ہوتے ۔
گذشتہ سال اگست میں قزاقوں نے مصر کے ایک مال بردار جہاز کو اغواء کر کے اس بحری جہاز کے عملے کے گیارہ مصری، چھ بھارتی، ایک سری لنکن جب کہ چار پاکستانی باشندوں کو بھی یرغمال بنا لیا تھا ۔