رسائی کے لنکس

صومالی قزاقوں کی قید سے رہائی تک ،اعصاب شکن واقعے کا تاریخ وار جائزہ


صومالی قزاقوں کی قید سے رہائی تک ،اعصاب شکن واقعے کا تاریخ وار جائزہ
صومالی قزاقوں کی قید سے رہائی تک ،اعصاب شکن واقعے کا تاریخ وار جائزہ

22 افرادآخر کار 9 ماہ اور 27 دن بعداپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔لیکن ان کی یہ واپسی اتنی آسانی سے ہر گز ممکن نہ ہوسکی جتنی کہ ہونی چاہئے تھی۔ تکلیفوں ، پریشانیوں اور مصائب کا سلسلہ تھا جو تھمنے میں ہی نہ آتا تھا

صومالی قزاقوں کی قید سے رہائی پاکر کراچی پہنچنے والے 22 افرادآخر کار 9 ماہ اور 27 دن بعداپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔لیکن ان کی یہ واپسی اتنی آسانی سے ہر گز ممکن نہ ہوسکی جتنی کہ ہونی چاہئے تھی۔ تکلیفوں ، پریشانیوں اور مصائب کا سلسلہ تھا جو تھمنے میں ہی نہ آتا تھا۔اس دل خراش اور اعصاب شکن واقعہ کا تاریخ وار جائزہ کچھ اس طرح ہے:

26 جولائی 2010ء : 22افراد پر مشتمل عملہ کراچی سے بحری جہاز ایم وی سوئز میں افریقہ کیلئے روانہ ہوتا ہے ۔یہ مصر کی کمپنی کا جہاز تھاجس پر سیمنٹ لدا ہوا تھا۔

2 اگست 2010ء: جہاز پر بحری قزاقوں نے قبضہ کیا اور عملے کو یرغمال بنا لیا ۔ ان کی رہائی کے لئے جہاز کے مالک سے ایک سو ملین ڈالرز کا تقاضہ کیا گیا۔ڈیڑھ ماہ سے زاہد عرصے تک جہاز کے مالک اورقزاقوں کے درمیان مختلف اوقات میں مذاکرات ہوتے رہے ۔

26 اگست 2010ء: جہاز پر موجود عملے اور ان کے اہلخانہ کے لئے مایوس کن دن رہا ، جب یہ خبر آئی کہ ایم وی سوئز کے مصری مالک عبدالمجید مطار اور قزاقوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں ۔ اس کے بعد صومالی قزاقوں نے یرغمالیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے اپنے اہل خانہ سے رابطہ کریں تاکہ وہ پیسوں کا انتظام کر سکیں ۔ چھ ماہ تک یرغمالیوں کے اہلخانہ اپنی حکومتوں سے مدد کی درخواستیں کرتے رہے تاہم دوسری جانب سے سوائے تسلیوں کے کوئی ٹھوس جواب نہ دیا گیاجس کے بعد چاروں طرف ناامیدی کی فضا پیدا ہو گئی۔اس صورتحال میں انصاربرنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق انصار برنی ایڈووکیٹ میدان میں کودے ۔

27 فروری 2011ء : انصار برنی کا قزاقوں سے ٹیلی فونک رابطہ قائم ہو ا جس سے امید کی ایک کرن نمودار ہوئی ۔انصار برنی نے قزاقوں سے گفتگو کے بعد تمام تر صورتحال کا جائزہ لیا اورقدم گورنر ہاؤس سندھ کی جانب بڑھا دیئے ۔ گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے بھی ان کے کندھے سے کندھا ملایا اور ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کروا دی ۔

28 فروری 2011ء: انصار برنی نے قزاقوں سے دوبارہ رابطہ کیا اور بتایا کہ چاروں پاکستانی سفید پوش خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اتنی رقم ادا نہیں کر سکتے نیز رقم کا بندوبست بھی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر انصار برنی ٹرسٹ ہی کرے گا۔ اس پر قزاقوں نے رقم کا مطالبہ کم کرکے پانچ ملین ڈالرز کر دیا ۔کپتان سید وصی حسن سے بات بھی کرائی جنہوں نے انصار برنی کو بتایا کہ ان پاکستانیوں کے ساتھ صومالیہ کے بحری قزاقوں نے تشدد شروع کیا ہوا ہے اور انہیں بار بار قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

11 مارچ 2011: قزاقوں نے مغویوں کی رہائی کیلئے پانچ روز کی مہلت دی اور تاوان کی رقم 23 لاکھ امریکی ڈالرز مقرر کر دی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خبردار کیا کہ اگر پانچ روز کے اندر رقم ادا نہیں کی گئی تو جہاز میں موجود لوگوں کو قتل کر دیا جائے گا ۔

9 مارچ 2011ء: انصار برنی نے اسلام آباد میں مصر کے سفیر مادی امیر سے ملاقات کی اور انہیں آگاہ کیا کہ جہاز پر مصر، بھارت ، سری لنکا اور پاکستان کے شہری ہیں ، اگر ان ممالک کی حکومتوں نے تعاون نہیں کیا تو حالات سنگین ہو سکتے ہیں لہذا وہ اپنی حکومت کو تعاون پر رضا مند کریں ۔

13 مارچ 2011ء: صومالی قزاقوں نے ایک مرتبہ پھر انصار برنی کو یقین دہانی کرائی کہ ہر حالت میں پیسے وقت پر پہنچ جانے چاہیئیں۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اگر رقم کی فراہمی میں کسی وجہ سے دیر ہوئی تو یرغمالیوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑے گا ۔اس پر انصار برنی نے گورنر سندھ اور سی پی ایل سی کے سربراہ احمد چنائے کے ساتھ مل کر رقم جمع کرنے کیلئے کوششیں مزید تیز کر دیں ۔

21 اپریل 2011ء:انصار برنی رقم کا انتظام کرنے کے لئے بھارت روانہ ہوئے جہاں انہوں نے بھارتی مغویوں کے اہلخانہ اور مخیر حضرات سے ملاقاتیں کی ۔ اسی دوران ایک بھارتی رکن پارلیمنٹ کے ڈی سنگھ نے تاوان کی بھاری رقم کا ایک حصہ یرغمالیوں کی رہائی کے لئے دینے کا وعدہ کیا ۔

29 اپریل 2010ء:قزاقوں نے انصار برنی پر واضح کیا کہ وہ تین روز کے اندر اندر پیسوں کا انتظار کر لیں ۔اس کے ساتھ ساتھ صومالیہ میں واقع ایک بینک کا اکاوٴنٹ نمبر بھی دیا گیا۔قزاقوں کا کہنا تھا کہ اگر تین دن میں رقم دینے سے متعلق حتمی بات نہیں کی گئی تو وہ یرغمالیوں کو مارنا شروع کردیں گے۔

2مئی 2011ء: گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کہاہے کہ بحری قزاقوں کی قید میں موجود4 پاکستانیوں سمیت دیگر عملے کی رہائی کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کئے جارہے ہیں اور بہت جلد چاروں پاکستانی وطن واپس پہنچ جائیں گے۔ان پاکستانیوں کی رہائی کے لئے جس طرح مختلف اداروں اور پاکستانی عوام نے تعاون کیاہے یہ جذبہ قابل قدر ہے۔

10 مئی 2011ء: ایک ہفتے تک مذاکرات میں تعطل، انصار برنی سے فون پر رابطے ختم کرلئے گئے ۔ بعد میں مغویوں کی رہائی کیلئے درخواست پر مزید چھ روز کی مہلت دے دی گئی۔

تیرہ مئی 2011ء: عین موقع پربھارتی رکن پارلیمنٹ کے ڈی سنگھ وعدے سے پھر گئے اور چھ لاکھ ڈالرز دینے کے اعلان کے بعد ٹال مٹول کرنے لگے ۔ اس طرح یرغمالیوں کی رہائی ایک بار پھر کھٹائی میں پڑھ گئی ۔

23 مئی 2011ء: ڈیڈ لائن کے خاتمے کے بعد صومالیہ کے بحری قزاقوں نے مغویوں پر تشدد کرنا شروع کردیا ہے۔ ایک مصری مغوی پر تیل چھڑک کر آگ لگادی جس سے وہ جھلس گیا،اسی دوران رابطہ کرنے پر مہلت مزید دس دن تک بڑھا دی گئی ۔

یکم جون 2011ء:بار بار کی ڈیڈ لائن کے باعث قزاق سخت مشتعل تھے ۔انہوں نے یرغمالیوں کا پینے کا پانی تک بند کر دیا ۔ انصار برنی کی اپیل پر ایک مرتبہ پھر گیارہ جون تک ڈیڈ لائن میں توسیع کر دی گئی ۔

10 جون 2011ء: صومالیوں نے اعلان کیا کہ اگر انہیں مقررہ تاریخ تک رقم نہ ملی تو جہاز کے مصری چیف انجینئر ویل صالح محمد کو گولی مارکر قتل کردیں گے۔ادھرمخیر اور صاحب ثروت افراد سے انصار برنی ٹرسٹ کی جانب سے جمع کی جانے والی اکیس لاکھ امریکن ڈالرز کی امدادی رقم شپنگ کمپنی کے ذریعہ مصر کی حکومت کے ٹریزری ڈپارٹمنٹ میں جمع کرادی ۔ مصر میں نجی کمپنی کا ایک جیٹ طیارہ بھی اسی سلسلے میں تیس ہزار ڈالرز روزانہ اجرت پر کرائے پرحاصل کیا گیا ۔

13 جون 2011ء: اس تاریخی دن کو صومالی قزاقوں نے جہازتاوان وصول کرنے کے بعد چھوڑ دیا ۔

14 جون کو جہاز رہائی کے بعد اپنی منزل کی جانب چل پڑا اور مواصلاتی نظام بھی بحال ہو گیا ۔

15 جون کو دوبارہ قزاقوں نے جہاز پر حملہ کیا لیکن پاک بحریہ کا جہاز مدد کے لئے پہنچ گیا ۔

16 جون کو قزاقوں نے پی این ایس بابر پر حملہ کیا تاہم جوابی کارروائی پر قزاق فرار ہو گئے ۔

17 جون کو پاکستان نے ایم وی سوئز کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے پر بھارت سے احتجاج کیا ، پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق پی این ایس بابر اور بھارتی جہاز کی سائیڈیں رگڑ کھا گئیں ۔

18 جون کو بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پی این ایس بابرنے ہمارا جہاز گوداوری روکنے کی کوشش کی ، دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے نیول اتاشی کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا، اسی روز ایم وی سوئز کا ایندھن ختم ہو گیا اور اسے صلالہ سے اسی ناٹیکل مائل پر روکنا پڑا ۔

19 جون کو ایم وی سوئز کا تمام عملہ بحفاظت پی این ایس بابرپر منتقل کر دیا گیا ۔ تمام افراد خیریت سے تھے ، اسی روز پی این ایس ذوالفقار بھی پی این ایس بابر کی مدد کے لئے روانہ ہو گیا ۔

20 جون کو جدید جنگی آلاست سے لیس ذوالفقار سوئز کے عملے کو لیکر پاکستان کے لئے روانہ ہوا۔

23 تاریخ کو عملے سمیت پی این ایس ذوالفقار کراچی پہنچ گیا ۔

XS
SM
MD
LG