’’بھائی کے ساتھ آخری بار رابطہ جمعرات کی صبح پانچ بجے ہوا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ اب ہم اٹلی روانہ ہونے لگے ہیں۔ہمارا دو تین دن تک آپ سے رابطہ نہیں ہو گا آپ پریشان نہیں ہونا۔ چوتھے روز خبر آگئی کہ سمندر میں حادثہ ہو گیا ہے۔ ہم اب بھی پرامید ہیں کہ کوئی اطلاع آ جائے گی کہ ہمارا بھائی زندہ بچ گیا ہے۔‘‘
یہ کہنا ہے وسطی پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں منگوکی ورکاں کے رہائشی محمد عمر کا، جن کا بھائی اسامہ کشتی کےحادثے میں تاحال لاپتا ہے اور اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہیں۔
گاؤں کے لوگ اور قریبی رشتہ دار ان کے گھر آ جا رہے ہیں اور سب یہی دلاسہ دے رہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہو جائے گا اور اسامہ کے زندہ بچنے کی خبر آ جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ گھر آنے والا کوئی بھی شخص کوئی ایسے الفاظ ادا نہیں کر رہا جس سے کسی کےپرسے کا تاثر ہو۔ آنے والے محتاط انداز میں گفتگو کرتے نظر آئے۔
محمد عمر کے مطابق اسامہ کی عمر 20 برس تھی اور اس کے ذہن میں بس یہی سمایا ہوا تھا کہ پاکستان میں اب کوئی مستقبل نہیں ہے اس لیے اس نے ملک سے باہر جاکر وہاں روزگار ڈھونڈنا ہے۔
غم زدہ محمد عمر کہتے ہیں کہ ’’ہمارا بھائی ایک ماہ پہلے پاکستان سے لیبیا پہنچا تھا جہاں اس کو اٹلی جانے کےلیے اپنی باری کا انتظار کرنے کو کہا گیا تھا۔ ایک ماہ بعد بھائی کی باری بھی آگئی۔ ہمارا اسامہ کے ساتھ آخری بار رابطہ جمعرات کو ہوا تھا۔ تب اس کا کہنا تھا کہ ہم صبح پانچ بجے اٹلی روانہ ہونے لگے ہیں۔ ہمارے لیے دعا کرنا کہ ہم خیریت سے پہنچ جائیں۔ وہ خوش بھی تھا اور پرجوش بھی، ہم نے کہا کہ اللہ کے سپرد جاؤ۔‘‘
محمد عمر نے کہا کہ ہم خود پریشان ہیں کہ انسانی اسمگلرکھلے عام پھرتے ہیں اور لڑکوں کو ورغلاتے ہیں۔ پولیس یا ایف آئی اے کوئی ادارہ انہیں کیوں نہیں پکڑتا؟ کوئی ماں یا باپ اپنی خوشی سے لخت جگر کو ڈنکی لگانے کے لیے موت کے سفر پر روانہ نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا یہ ایجنٹ ہی ہیں جو لڑکوں کو ورغلاتے ہیں اور انہیں مستقبل کے سہانے خواب دکھا کربہکا کر لے جاتے ہیں۔
یونان میں کشتی ڈوب جانےکےحادثے میں، اس پر سوار افراد اور لاپتا یا ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں اگرچہ مختلف اداروں سے متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں لیکن اب تک ملنے والے شواہد کے مطابق جو افراد لاپتا ہوئے ہیں ان میں وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
پنجاب میں سب سے زیادہ جانے والے افراد کا تعلق ضلع گجرات سے ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہاں سے تین سے چار درجن افراد اس کشتی میں سوار تھے۔ تاہم اس کی تصدیق سرکاری طور پر نہیں ہوئی۔
ضلع گوجرانوالہ کی دو تحصیلوں نوشہرہ ورکاں اور وزیر آباد کے کئی نوجوان بھی اس کشتی میں سوار تھے۔
سیالکوٹ، ڈسکہ اور منڈی بہاالدین سے بھی اٹلی جانے کے خواہش مند افراد لاپتا ہیں۔ ان کے گھروں میں گہرے دکھ اور اضطراب کی کیفیت ہے۔
لاپتا افراد کے کوائف معلوم کرنے کےلیے تھانوں سمیت ایف آئی اے ، انٹیلی جنس بیورو اور اسپیشل برانچ کے اہلکار متحرک ہیں جو کہ مقامی بلدیاتی نمائندوں اور میڈیا سے وابستہ افراد سے بھی مدد حاصل کر رہے ہیں۔
دوسری جانب غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے والے افراد کے ورثا سرکاری اداروں سے بذات خود رابطہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
'پندرہ منٹ تک تیر کر امدادی جہاز تک پہنچا اور زندہ بچ گیا'
نوشہرہ ورکاں کے گاؤں منگوکی ورکاں کا حماد علی بھی ا جو اسامہ اور محمد عمر کا کزن ہےاسی کشتی کےحادثے کے بعد سے لاپتا ہے۔
حماد علی کے چچا علی رضا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں ان کے خاندان کے تین لڑکے سوار تھے جن میں ان کا ایک بھتیجا اور دو بھانجے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھتیجے حماد علی اور بھانجے خاور حسین کا تاحال پتا نہیں چل سکا جب کہ دوسرے بھانجے محمد سنی سے رابطہ ہوگیا ہے جو شیخوپورہ کا رہنے والا ہے۔
انہوں نے کہاا کہ ’’سنی کا کہنا تھا کہ ہماری کشتی کا انجن خراب ہو گیا تھا اور ہم سمندر کے درمیان رک گئے تھے۔ ہم اپیلیں کرتے رہے لیکن ہماری امداد کو کوئی نہ آیا۔‘‘
SEE ALSO: پاکستان میں انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤنمحمد سنی نے اپنے اہلِ خانہ کو بتایا کہ جو جہاز ہماری مددکو آیا تھا اس نے ایک طرف سے رسہ ڈال کر ہماری کشتی کو کھینچا جس سے کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور الٹ گئی۔
محمد سنی کا کہنا تھا کہ وہ 10 سے 15 منٹ تک سمندر میں تیر کر آنے والے جہاز تک پہنچا۔ جہاز کے عملے نے مبینہ طور پر انہیں ڈوبنے سے بچانے کی کوشش نہیں کی۔وہ کہتے ہیں اگر وہ ڈوبتے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتے تو اتنے بڑے پیمانے پرجانی نقصان نہیں ہوتا۔
'ایجنٹ نے کہا مبارک ہو آپ کے لڑکے اٹلی پہنچ گئے'
کشتی کے حادثے میں وسطی پنجاب کے شہر وزیر آباد کے نواحی گاؤں پنڈوری کلاں کے چھ دوست بھی لاپتا ہیں جن کے نام بلال ، نعمان، زین، مہران، عمر سیٹھ اور نبی احمد ہیں۔
ان نوجوانوں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کا لڑکوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور کسی سرکاری ادارے نے بھی ان سے تاحال کوئی رابطہ نہیں کیا۔
پنڈوری کلاں کے رہائشی غلام رسول کا بھائی بھی کشتی حادثے کے بعد سے لاپتا ہے۔
غلام رسول کا کہنا تھا کہ حادثے کی اطلاع سے ایک روز پہلے ہی ایجنٹ نے گاؤں آکر کہا تھا کہ مبارک ہو آپ کے لڑکے اٹلی پہنچ گئے ہیں جس پر سب نے مٹھائیاں بانٹیں کہ شکر ہے کہ لڑکے پہنچ گئے ہیں۔ اس دوران ایجنٹ بقایا جات بھی لے گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ اگلے دو روز یعنی بدھ اور جمعرات کو ایجنٹ کے دونوں نمبر بند ملے جب اس کے گھر سے پتا کرایا تو وہ گھر پر بھی موجود نہیں تھا۔ اب کچھ پتا نہیں ہے کہ لڑکے زندہ ہیں کہ نہیں۔
غلام رسول کا مزید کہنا تھا کہ ایجنٹ امجد جو قریبی گاؤں دھارووال کا رہائشی ہے، اس کے ساتھ 25 لاکھ روپے فی کس پر اٹلی لے جانےے کا معاملہ طے ہوا تھا۔
اس حادثے میں فضل دین کا بھتیجا بلال لیاقت بھی لاپتا ہے جو چھ دوستوں کے گروپ میں شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ دوستوں کا غلط طریقے سے اٹلی جانے کا فیصلہ بھی غلط تھا لیکن انہیں بہکایا گیا تھا۔ وہ نادان لڑکے تھے اس لیے ایجنٹ کی باتوں میں آگئے۔ کیوں کہ لڑکوں کا خیال تھا کہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں اور اگر وہ ایک بار یورپ پہنچ گئے تو اچھا روزگار مل سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمں ابھی تک مکمل پتہ نہیں ہے کہ کیا معاملہ اور حالات ہوئے۔ ہم گاؤں میں دعائیں کرا رہے ہیں کہ ہمارے لڑکے زندہ بچ جائیں۔
انہوں نے وزیرِ اعظم سے بھی درخواست کی کہ پاکستان اپنی ٹیم لیبیا اور یونان بھیجے تاکہ اگر معاملہ بہتر ہوسکے تو والدین صدمے سے بچ جائیں گے۔
SEE ALSO: یونان کشتی حادثہ: 'ایجنٹ نے اس وعدے کے ساتھ 22 لاکھ روپے لیے کہ بیٹا یورپ جا کر اچھا کمائے گا'بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ کیا گیا کہ کشتی کےحادثے میں 298 پاکستانی ہلاک ہوئے جن میں 135 کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تھا البتہ اس رپورٹ کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ اب تک زندہ بچ جانے والے 78 میں سے صرف 12 کا تعلق پاکستان سے تھا۔ بعض اندازوں کے مطابق اس کشتی پر لگ بھگ 750 افراد سوار تھے جن میں سے 100 کے قریب بچے بھی ہو سکتے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ یونان میں کشتی کےحادثے پر 19 جون کو ملک بھر میں یوم سوگ ہوگا۔ سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق آج قومی پرچم سرنگوں رہے گا ۔
انسانی اسمگلرز کے خلاف کریک ڈاؤن
ایف آئی اے نے یونان کشتی حادثہ کیس میں پنجاب کے تین اہم انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ متعدد ایسے ایجنٹس بھی حراست میں لیے گئے ہیں جو ان انسانی اسمگلرز سےمعاونت کرتے تھے اور انہیں ہر کیس میں کمیشن ملتا تھا۔
ایف آئی اے ترجمان کے مطابق ایجنٹ محمد شبیر کا تعلق وزیر آباد سے ہے جس نے متاثرہ شہریوں کو یورپ بھجوانے کےلیے فی کس 23 لاکھ روپے وصول کیےتھے۔
کشتی حادثہ کیس میں شیخوپورہ سے انسانی اسمگلر طلحہ شاہ زیب کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جس نے متاثرین سے 35 لاکھ روپے فی کس وصول کیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایف آئی اے نے حادثے میں ملوث ایک اہم ملزم کو کراچی ایئرپورٹ پر اس وقت حراست میں لیا جب وہ بین الاقوامی پرواز سے آذربائیجان فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا۔
ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق ملزم متعدد شہریوں کو غیر قانونی طریقے سے لیبیا بھجوانے میں ملوث تھا جسے کراچی سے گجرات منتقل کردیا گیا ہے۔
انسانی اسمگلرز کا روٹ تبدیل
پاکستان سے یورپ پہنچنے کے خواہش مند افراد کوئٹہ کے راستے ایران اور وہاں سے ترکی اور پھر یونان جاتے تھے لیکن گزشتہ ایک عشرے سے اب ایران اور ترکی کے بارڈرز پر حالات کافی سخت ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے اس روٹ سے ڈنکی لگانا اب ناممکن ہو گیا ہے۔
ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر مخدوم قیصر بشیر نے اس سلسلے میں بتایا کہ انسانی اسمگلرز نے اب لیبیا اور ترکی کے راستے اٹلی جانے کا نیا روٹ اپنا لیا ہے جوبحری راستے کے ذریعہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں کو وزٹ ویزہ لگوا کر پہلے دبئی یا کسی عرب ملک بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ لیبیا جاتے ہیں۔ لیبیا میں بارڈر کراسنگ کا نیٹ ورک پہلے سے موجود ہے یوں لیبیا سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
قیصر بشیر کے بقول ایف آئی اے کی مختلف ٹیمیں ملک بھر میں دن رات چھاپے مار رہی ہیں اور تمام ملزمان کو حراست میں لیا جائے گا، چاہے وہ انسانی اسمگلر ہوں یا ان کے ایجنٹ۔
حالیہ برسوں میں ملک میں مہنگائی میں جتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اتنی ہی تیزی سے نوجوان ملک سے باہر روزگار کے حصول کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔
SEE ALSO: انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے پاکستان کے پاس بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع ہے: امریکی محکمۂ خارجہایک غیر سرکاری تنظیم 'یارمددگار' کے چیئرمین رضوان خواجہ کا کہنا ہے کہ اب یہ تاثر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اگر کچھ کمانا ہے تو پاکستان سے باہر چلے جاؤ کیوں کہ یہاں حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
رضوان خواجہ کہتے ہیں کہ اس میں قصور موجودہ اور سابق حکمرانوں کا بھی ہے جنہوں نے قوم کو اس حال پر لاکھڑا کیا ہے جہاں نوجوان نسل بے یقینی کی صورتِ حال سے دو چار ہے اور اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2022 میں سات لاکھ 65 ہزار افراد مستقل بنیادوں پر پاکستان چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ 2021 میں یہ تعداد دو لاکھ 25 ہزار اور 2020 میں دو لاکھ 88 ہزار تھی۔
انہوں نے کہا کہ امکان یہی ہے کہ جب 2023 ختم ہونے کے بعد اس برس کے اعداوشمار سامنے آئیں گے تو وہ تعداد یقیناً 2022 کے اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہوگی۔