آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ایشز ٹیسٹ ختم ہونے سے قبل ہی تنازعات سامنے آ رہے ہیں۔ ایک طرف انگلش آل راؤنڈر معین علی کو اپنے ہاتھ خشک کرنے کے لیے اسپرے کا استعمال کرنے پر آئی سی سی کی جانب سے جرمانہ ہوا تو وہیں انگلش بالر اولی روبنسن کا حریف کھلاڑی کو آؤٹ کرکے جشن منانا انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے۔
واقعہ برمنگھم میں جاری میچ کے تیسرے دن پیش آیا جب انگلینڈ کے 393 رنز کے جواب میں آسٹریلوی ٹیم نے 372 رنز بنالیے تھے اور ان کے اوپنر عثمان خواجہ 141 رنز پر بیٹنگ کررہے تھے۔
ایسے میں میزبان ٹیم کے کپتان بین اسٹوکس نے وکٹ کے دونوں اطراف تین تین کھلاڑی کھڑے کرکے پہلی مرتبہ انگلش سرزمین پر سینچری بنانے والے بلے باز کو دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کی۔
آسٹریلوی بلے باز نے حریف پیسر اولی روبنسن کی آہستہ آتی ہوئی گیند کو آگے بڑھ کر کھیلنے کی کوشش کی جس کو وہ یارکر بن گئی اور یوں گیند ان سے مس ہوکر سیدھی وکٹوں سے جا ٹکرائی ۔ لیکن ان کی واپسی پر کامیابی حاصل کرنے والے بالر نے جو جملہ ادا کیا اس پر سب کو ہی تعجب ہوا۔
اولی روبنسن نے حریف کھلاڑی کو آؤٹ کرتے ہی زور سے چند نامناسب الفاظ کہے جسے فیلڈ میں موجود کھلاڑیوں سمیت کمنٹری باکس میں بیٹھے کمنٹیٹرز اور ٹی وی صارفین نے بھی نوٹ کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب اولی روبنسن نسل پرستانہ عمل کی وجہ سے مشکل میں آئے ہیں۔ تین سال قبل اپنے پہلے ہی ٹیسٹ کے بعد ان کے نسل پرستانہ ٹوئٹس پر انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے انہیں فوری معطل کر دیا تھا۔
ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2012 اور 2013 میں مسلمانوں اور خواتین کے خلاف ٹوئٹس کی تھیں۔ بعد میں انہوں نے ان ٹوئٹس پر معافی مانگ لی تھی جس کے بعد ان کی انگلش ٹیم میں واپسی ممکن ہوئی تھی۔
عثمان خواجہ کو آؤٹ کرکے غصے میں بھرے الفاظ پر کمنٹیٹر ایڈم کالنز نے کہا کہ یہ بالکل غیر ضروری تھا۔ دونوں ٹیمیں بہترین اسپرٹ میں میچ کھیل رہی ہیں۔ اس قسم کے واقعے اس اسپرٹ کے منافی جاتے ہیں۔
صحافی ٹم پامر نے اولی روبنسن کی جانب سےماضی میں کی گئی ٹوئٹس پر معافی مانگنے کی خبر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ڈیڑھ دن تک عثمان خواجہ کو آؤٹ نہ کرنے کے بعد جو ردِ عمل انگلش بالر نے دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی کرکٹ سے زیادہ یکسانیت ان کے کردارمیں ہے۔
اسپورٹس صحافی جولیئن گائر کے خیال میں بہتر ہوتا اگر اولی روبنسن عثمان خواجہ کو آؤٹ کرنے کے بعد کچھ نہ کہتے۔
میچ کے بعد اولی روبنسن نے اپنی حرکت پر معافی مانگنے کے بجائے اس کا دفاع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میچ میں یہ ان کی پہلی وکٹ تھی اور ان کا وکٹ حاصل کرنے کے بعد ری ایکشن 'تھیٹر آف دی گیم' یعنی کھیل کا ایک حصہ ہے۔
اولی روبننس کا مزید کہنا تھا کہ عثمان خواجہ نے پوری اننگز میں بہترین بیٹنگ کی اور ان کو اپنی پہلی ہوم ایشز میں آؤٹ کرنا ان کے لیے ایک یادگار لمحہ تھا۔ شائقین کھیل میں ڈرامہ دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ انہیں وہی ڈرامہ دے رہے ہیں۔
انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رکی پونٹنگ اور دیگر آسٹریلوی کھلاڑی بھی اس قسم کی حرکتیں کرچکے ہیں۔ اگر آسٹریلوی کیمپ میں کسی کو ان کا ردِ عمل برا لگا تو اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔
ان کے خیال میں اگر کوئی اس قسم کا جوش ہینڈل نہیں کرسکتا تو کچھ ہینڈ ل نہیں کرسکتا۔
اس کے برعکس آسٹریلوی وکٹ کیپر ایلکس کیری کا کہنا تھا کہ روبنسن کے ردِ عمل پر نہ تو عثمان خواجہ نے کوئی ری ایکشن دیا نہ ہی آسٹریلوی ڈریسنگ روم میں کسی نے اس پر اظہارِ رائے کیا۔ 141 رنز بناکر آؤٹ ہونے پر عثمان خواجہ کو زیادہ افسوس تھا نہ کہ بالر کے جوش میں کچھ کہنے پر۔
سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے اولی روبنسن کی حرکت پر تعجب کا اظہار کیا۔ ٹائٹس او رائیلی نامی صارف نے کہا کہ روبنسن کے ردِ عمل سے تو لگ رہا تھا جیسے انہوں نے عثمان خواجہ کو صفر پر آؤٹ کیا ہو۔
رائن نامی صارف کے خیال میں اگر عثمان خواجہ کو 141 رنز بنانے کے بعد آؤٹ کرکے چیخنا انگلش کھلاڑیوں کا ٹیسٹ کرکٹ بچانے کا طریقہ ہے تو یہ مضحکہ خیز ہے۔
ایک اور صارف کے خیال میں دنیائے کرکٹ کے سب سے خوش مزاج کرکٹر کو آؤٹ کرکے خراب زبان استعمال کرنا ایک چھوٹی حرکت تھی۔